Header Ads Widget

راسخ في العلوم علماء کی عدم دستیابی ایک لمحہ فکریہ! ایک تجویز!

 راسخ في العلوم علماء کی عدم دستیابی ایک لمحہ فکریہ! ایک تجویز!

راسخ في العلوم علماء کی عدم دستیابی ایک لمحہ فکریہ! ایک تجویز!


از: محمد زبیر


            ملک عزیز کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے دینی مدارس سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں علما و فضلا کی ایک بہت بڑی جماعت سند فراغ حاصل کرتی ہے اور اس تعداد میں ہر سال اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ دینی مدارس اور علمائے کرام کے خلاف عشروں پر محیط منفی پروپیگنڈے کے علی الرغم دینی مدارس کی طرف رجحان اور دینی تعلیم کے حصول کے جذ بہ وشوق میں اضافہ ہو رہا ہے۔

       اس معاملے کا ایک اہم اور خوش آئندہ پہلو یہ بھی ہے کہ دینی مدارس میں علوم دینیہ کی تحصیل کی طرف تیزی سے راغب افراد میں قابل ذکر تعداد ایسے نو جوانوں کی بھی ہے جو عصری علوم کی تحصیل کے بعد دینی تعلیم کے حصول کی طرف آتے ہیں اور دستار فضیلت اپنے سروں پر سجاتے ہیں۔

            تا ہم تشویش ناک بات یہ ہے کہ دینی تعلیم کی طرف رجحان میں اضافے کے باوجود بحیثیت مجموعی علم و فضل میں پختہ اور علمائے متقدمین کی طرح راسخ فی العلم مدرسین کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ جید الاستعداد اور بلند فکر و نظر کے حامل فضلا کم یاب ہی نہیں نایاب ہوتے جارہے ہیں۔ جب مدارس خال خال اور ان میں علم حاصل کرنے والے قلیل تعداد میں تھے تب درس و تدریس، وعظ و خطابت، تصنیف و تالیف اور دینی خدمت کے دیگر شعبوں میں قابل اور کام کے افراد اچھی خاصی تعداد میں موجود تھے،مگر اب صورت حال یہ ہے کہ فضلائے کرام کی تعداد میں جوں جوں اضافہ ہوتا جارہا ہے،کام کے افراد کم ہوتے جارہے ہیں۔ امت کو در پیش جدید چیلنجز کا درست ادراک اور ان سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت، نئے پیش آمدہ معاملات و مسائل کی درست فقہی تکییف اور قرآن وسنت کی روشنی میں ان کا قابل عمل حل بتلانے کی استعداد اور الحاد و فکری ارتداد سمیت تمام جدید فتنوں کے مقابلے میں عوام الناس کی صحیح دینی رہنمائی کی قابلیت تو دور کی بات ہے اورعلم وتحقیق کے میدان میں کوئی معرکہ سر کرنا تو بہت بڑی بات ہے، آج کل ہزاروں کی تعداد میں دستار فضیلت سروں پر سجانے والوں کی اکثریت درست عبارت تک پڑھنے پر بھی قدرت نہیں رکھتی ۔اور یہ کوئی مبنی بر مبالغہ بات نہیں ہے۔ اگر دینی اداروں کا ایک جائزہ لیا جائے کہ کتنے فیصد طلبہ کرام درست عبارت خوانی پر قادر ہیں؟ تو معلوم ہوگا کہ اکثر طلبہ صحیح عربی عبارت پڑھنے پر قادر نہیں ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جولوگ درست عبارت خوانی پر قادر نہیں ، وہ مطلب و مفہوم رکھنے کی لیاقت کس قدر رکھتے ہوں گے؟ اور جن بے چاروں میں کسی عبارت کا معنی و مفہوم از خود سمجھنے کی اہمیت مفقود ہے، وہ نصوص میں غور و فکر کر کے عوام الناس کی دینی رہنمائی کا فریضہ کیونکہ سر انجام دے سکتے ہیں؟

          سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کو سندِ فراغت اور دستارِ فضیلت عطا کر کے یہ شہادت دی جارہی ہے کہ یہ امت مسلمہ کی قرآن وسنت کی روشنی میں دینی رہنمائی کے جلیل القدر منصب کی اہلیت کے حامل ہیں، اگر ان کی بڑی تعداد مطلوبہ علمی لیاقت سے محروم اور دینی رہنمائی کے لیے درکار استعداد و صلاحیت سے عاری ہے تو پھر اس سندِ فراغت اور دستارِ فضیلت کی کیا حیثیت ووقعت رہ جاتی ہے؟ 

          اس علمی انحطاط و تنزل کے وجوہ و اسباب کیا ہیں؟ اور اس کا علاج کیا ہے؟ اس موضوع پر اربابِ علم و دانش و اصحابِ فکر و نظر اپنی وقیع آراء اور قیمتی تجاویز وقتا فوقتا پیش کرتے رہتے ہیں مگر شاید ان تجاویز کو رو بہ عمل نہ لانے کی وجہ سے تا حال کوئی حوصلہ افزا صورت حال پیدا نہیں ہو سکی۔ 

       ہماری ناچیز رائے میں اس صورتحال کا سب سے بڑا سبب کیفیت کی بجائے کمیت اور معیار کی جگہ مقدار کو مطمحِ نظر بنالینا اور طلبہ کو تحتانی درجے سے فوقانی درجے میں ترقی دینے کا ڈھیلا ڈھالا نظام ہے۔

       اس تلویح کی توضیح اور اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ہمارے امتحانی نظام میں جس طرح درجہ متوسطہ اور درجہ ثانیہ عامہ کی سند کے حصول کے لیے چالیس فیصد نمبروں کا حاصل کرنا ضروری ہے، اس طرح شھادۃ العالمیة کے حصول کے لیے بھی محض چالیس فیصد نمبر حاصل کر لینے کو کافی قرار دیا گیا ہے اور ظاہر بات ہے کہ صرف چالیس فیصد نمبر حاصل کرنے کے لیے طالب علم کو زیادہ محنت و مشقت اور تگ دو کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ، جب ایک طالب علم یہ جانتا ہے کہ اگر میں نے صرف چالیس فیصد نمبر بھی حاصل کر لیے تو مجھے اگلے درجے میں ترقی مل جائے گی حتی کہ دورہ حدیث شریف والے سال بھی اگر میں چالیس فیصد نمبر حاصل کر لینے میں کامیاب ہو گیا تو میرے سر پر دستارِ فضیلت سجا اور میرے ہاتھ میں سندِ فراغت تھما دی جائے گی۔ تو وہ بلند علمی مدارج و مراتب کی تحصیل و تکمیل کے لیے درکار صعوبتیں کیوں برداشت کرے گا ؟ مطالعے میں دماغ کیوں کھپائے گا ؟ تکرار کا کشٹ کیوں اٹھائے ؟اپنی علمی استعداد میں اضافے کے لیے شب بیداری کی مشقت کیوں جھیلے گا ؟ اور اپنی لیاقت و صلاحیت بڑھانے کے لیے سحرخیزی کی خو کیوں اپنائے گا؟ 

        یہ امر ہر صاحبِ نظر کے مشاہدے میں ہے کہ آج کل کے طلبہ میں وہ بلند فکری اور اولوالعزمی معدوم ہو چکی ہے جو علم میں رسوخ و تعمق پیدا کرنے کا محرک اور خود کو علمی طور پر زیادہ سے زیادہ ذی استعداد بنانے کا باعث بنا کرتی تھی۔ اب طلبہ محض اتنی محنت پر اکتفا کرتے ہیں جو امتحان میں کامیابی کے لیے ضروری اور سند کے حصول کے لیے لازمی ہوتی ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ سندِ فراغ کے حصول کو ایسے کڑے معیار کے ساتھ مشروط کر دیا جائے جس پر پورا اترنے کے لیے طلبہ از خود محنت کرنے اور اپنی استعداد کو مضبوط بنانے پر خود کو مجبور پائیں۔ جس طرح میڈیکل انجینئرنگ اور قانون کی تعلیم دینے والے کالجوں اور یو نیورسٹیوں میں ایک معیار مقرر ہے کہ اتنے فیصد نمبر حاصل کرنے کے بعد ہی امیدوار کو ان شعبہ جات میں داخلہ دیا جائے گا اور فلاں ڈویژن میں امتحان پاس کرنے کے بعد ہی طالب علم کو ڈگری دی جائے گی، اس طرح وفاق المدارس العربیہ کو بھی ہر درجے کے لیے کوئی معیار مقرر کر دینا چاہیے کہ اتنے فیصد نمبر حاصل کرنے والے طلبہ ہی فوقانی درجے میں داخلے کے اہل ہوں گے۔ مثال کے طور پر یہ طے کر دیا جائے کہ درجہ رابعہ میں پچاس فیصد، خامسہ میں ساٹھ فیصد ،سادسہ میں ستر فیصد اور درجہ مشکوۃ شریف میں اسی فیصد نمبروں میں کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ ہی کو اگلے درجے میں داخلہ دیا جائے گا اور دورہ حدیث کی سند نوے فیصد نمبر حاصل کرنے والوں ہی کو جاری کی جائے گی اور جو طلبہ مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اتریں گے انہیں اگلے سال دوبارہ امتحان دینا ہوگا۔ اگر یہ معیار طے کر دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ ہم معاشرے کو ذی استعداد اور دینی قیادت کے اہل فضلائے کرام دینے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی حاصل ہوگا کہ دینی مدارس کے حضرات اساتذہ کرام اور انتظامیہ کو جوتوانا ئیاں طلبہ کرام کو محتنی اور ذی استعداد بننے کی ترغیب دینے پر صَرف ہوتی ہیں،لیکن بایں ہمہ ترغیب و ترہیب طلبہ بد محنتی اور لا ابالی پن میں مبتلا رہتے ہیں، اساتذہ و انتظامیہ کی وہ توانائیاں اور ترغیب و ترہیب بھی ٹھکانے لگ جائے گی۔ بلکہ ہم ترقی کر کے یہ کہتے ہیں کہ اس ترغیب و ترہیب کی زیادہ ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی اور ہر طالب علم مطلوبہ نمبر حاصل کرنے کے لیے از خود محنت کرے گا۔ 

        یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ گزشتہ سطور میں ہم نے مختلف درجات کے امتحانات کے لیے کامیابی کا جو معیار تجویز کیا ہے وہ بطور مثال کے ہے ورنہ یہ کام اربابِ مدارس اور کارپردازانِ وفاق المدارس کا ہے کہ وہ باہمی مشاورت سے کس درجے کے امتحان کے لیے کون سا معیار مقرر کرتے ہیں۔تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ اب اس قسم کا کوئی انقلابی فیصلہ کیے بغیر ٹھوس علمی استعداد کے حامل فضلائے کرام تیار کرنے کی کوئی اور صورت سر دست موجود نہیں ہے۔

        یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر مندرجہ بالا معیار مقرر کر دیا گیا تو فضلائے کرام کی تعداد میں کمی واقع ہو جائے گی اور بہت سے ایسے طلبہ جو حصولِ علم کا ذوق و شوق اور جذ بہ و ولولہ رکھتے ہیں مگر طبعی وخِلقی طور پر کمزور استعداد کے حامل ہیں، وہ علم دین کے حصول سے محروم ہو جائیں گے تو اس سلسلے میں عرض یہ ہےکہ"دراسات دینیہ" کا نصاب جو کہ پہلے ہی دینی مدارس میں پڑھایا جارہا ہے، اسی کو مزید بہتر کر کے اس کا دورانیہ پانچ سال (مثال کے طور پر ) کر دیا جائے اور جو طلبہ شھادۃ العالمیہ کے اہل نہ ہوں انہیں دراسات دینیہ کی سند دی جائے اور یہ ضابطہ بنا دیا جائے کہ دینی مدارس میں درس نظامی کی تدریس، تصنیف و تالیف اور تخصصات میں داخلے کے لیے تو شہادۃ العالمیہ کی سند شرط ہے جبکہ امامت و خطابت وغیرہ کے لیے دراسات دینیہ کی سند کا حامل ہونا کافی ہے۔ اگر مناسب سمجھا جائے تو دراسات دینیہ کا نام بدل کر "عالم کورس" یا اس سے ملتا جلتا کوئی اور نام تجویز کر دیا جائے تا کہ اس نصاب کے پڑھنے والوں کو بھی باقاعدہ عالم ہی سمجھا جائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

تبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!