Header Ads Widget

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی

 رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی!


رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی
از: ابوسفیان ندوی
دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

سیاست کا مطلب ہے قیادت ، اور جب ہم دنیا کی مختلف قیادتوں خواہ ماضی کی ہوں یا حال کی کو دیکھتے ہیں تو ان میں ظلم و جبر کا عنصر زیادہ پاتے ہیں ، لیکن جب ہم اسلام کی سیاست کو دیکھتے ہیں تو پاتے ہیں کہ اسلام نے زندگی کے ہر شعبے میں ، نہ صرف اس دنیا میں ، بلکہ دنیا اور آخرت دونوں میں لوگوں کی بہترین قیادت کی ہے -

اسی طرح جب رسول ﷺ کی سیاست کو دیکھتے ہیں تو پاتے ہیں کہ رسول ﷺ نے مسلمانوں کی جنگ و امن میں، حکم و قضاء میں، توجیہ و تنظیم میں، قیادت و ادارت میں اور مذہب و ریاست میں ، اسی طرح لوگوں سے متعلق سبھی چیز میں بہترین قیادت کی ہے ۔

رسول اللہ ﷺ ایک بہترین معلم و مربی تھے ، اسی کے ساتھ ساتھ وہ ایک دانشمند رہنما اور تجربہ کار سیاستداں بھی تھے ، ایک ایسا سیاستداں جو وقت سازی کے فن کے ساتھ ساتھ صبر و تحمل اور دور اندیش سیاست کے فن میں بھی ماہر تھے ۔

آپ ﷺ کی زندگی کا سیاسی پہلو ہمارے سامنے آپ ﷺ کی اعلی سیاسی صلاحیت اور بہترین عملی اور ارتقائی قیادت کو ظاہر کرتا ہے کہ جب آپ ﷺ نے اسلامی ریاست قائم کرنی چاہی تو آپ ﷺ نے تمام عرب کو اپنی قبائلی عصبیتوں کے باوجود ایک جھنڈا، ایک اختیار، ایک مقصد اور ایک پیغام تلے جمع کردیا۔ اور جزیرۃ العرب کی سرزمین میں توحید کا بیج بو کر اسلامی ریاست بنائی ، اور لوگوں کو جاہلیت کے قید سے آزاد کر کے ان کے دلوں میں اسلام کی حکمرانی قائم کی ، اور عوام کو عقیدۂ توحید سے خطاب کرکے ایک ایسی قیادت تیار کی کہ جس نے اسلامی معاشرہ کو دنیا کی تعمیر اور مذہب کی حفاظت کے لیے ہمیشہ رہنمائی کی ۔

اس طرح کی سیاست تھوڑے بہت فرق کے ساتھ آپ ﷺ کے تئیس سالہ دعوتی راہ میں بالکل نمایاں طور پر نظر آتے ہیں، خواہ وہ تیرہ سال جو رسول ﷺ  نے مکہ میں گزارے، یا وہ دس سال جو مدینہ میں گزارے، جب رسول اللہ ﷺ مکہ میں تھے تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام اور تابعین کے دلوں میں اسلام کی حکمرانی قائم کی، اور جب مدینہ آئے تو وہاں بھی آپ نے زمینی ریاست قائم کی ۔

 رسول ﷺ ایک بہترین قائد تھے اور آپ کی قیادت میں اسلامی حکومت کو حاصل ہونے والی سب سے بڑی سیاسی فتح آپ کی تیار کردہ وہ دستاویز تھی، جس میں آپ ﷺ نے قوم کے قیام کے عناصر کی وضاحت کی اور مسلمانوں اور دوسرے شہریوں خصوصاً یہودیوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت کا تعین کیا، اور نئی ریاستوں میں اقتدار و خود مختاری کے عنصر کو بھی منظم کیا۔ اور یہ سب اس وقت جزیرۃ العرب کی سیاسی زندگی کی تاریخ میں بالکل نیا تھا ۔

 اس دستاویز میں اسلامی سیاسی اور قانونی نوعیت کی تقریباً اڑتالیس چیزیں شامل تھیں۔ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک میں کوئی بھی مرکزی حکومت نہیں تھی، بلکہ حالات ایسے تھے کہ قرآن نے " ظهر الفساد في البر والبحر بما كسبت ايدي الناس " سے اسکی تعبیر کی ہے ۔
 
 چنانچہ جب رسول ﷺ کی آمد ہوئی تو آپ نے تمام مسلمانوں کو امت واحدہ سے خطاب فرمایا اور کہا کہ " کوئی مومن کسی مومن کو کافر کے بدلے میں قتل نہیں کرے گا اور نہ کسی کے خلاف کسی کافر کو امداد دی جائے گی " ۔ اور یہودیوں کے سلسلے میں کہا کہ " یہودی جب تک مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ کرتے رہیں گے وہ جنگ کے اپنے مصارف خود برداشت کریں گے " اور " عہد نامہ کسی ظالم اور خطا کار کو نہیں بچا سکے گا اور جو کوئی یہاں سے نکلے گا وہ مامون ہوگا اور جو یہاں رہے گا وہ بھی مامون ہوگا سوائے اس کے جو ظلم اور گناہ کرے گا " ۔

 ان اور ان کے علاوہ دیگر وہ شرائط جو مومنین اور یہودیوں کے درمیان تھے ، رسول ﷺ  نے ان کے ذریعہ ان دو بڑے سیاسی مسائل پر قابو پالیا جن کا سامنا آپ ﷺ کو اکثر و بیشتر کرنا پڑتا تھا ، ایک عرب قبائل کی کثرت اور کئی جگہوں پر ان کی لڑائی کا مسئلہ ، دوسرا یہودیوں کی آپ ﷺ سے دشمنی کا مسئلہ ۔

 رسول ﷺ  نے اس دستاویز کی مکمل پیروی کی، اور اس کے ذریعے سے آپ ﷺ نے اپنی ریاست کے ستونوں کو بھی مکمل کرلیا، اب رسول ﷺ کے پاس ان کے پیغام پر یقین رکھنے والے لوگ تھے ، باقاعدہ ایک ریاست بھی تھی ، اور مکمل سیاسی اتھارٹی بھی تھی ۔

اختتامیہ 
 یہ رسول ﷺ کی سیاسی زندگی کی صرف ایک ہلکی سی جھلک ہے، آپ ﷺ نے ایک ممتاز قیادت کی اور آپ کی اس قیادت نے ایک ایسا سماجی، معاشی اور انتظامی نظام قائم کیا جو آج بھی پوری دنیا کے تمام نظاموں میں سب سے زیادہ مضبوط اور مستحکم نظام کی نمائندگی کرتا ہے۔

 موجودہ دور میں مسلم سیاست دانوں کے لیے یہ باعث شرم ہے کہ وہ رسول ﷺ کو بحیثیت سیاستداں اپنا رول ماڈل نہیں مانتے ، وہ شہریوں کی چاپلوسی کیلئے رسول ﷺ کا حوالہ تو ضرور دیتے ہیں لیکن وہ خود ان پر عمل نہیں کرتے ، کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ وہ یہ تسلیم کریں کہ اسلام سیاست ہی کا ایک دوسرا نام ہے اور یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے