Header Ads Widget

دیوبند تاریخ و تمدن کے آئینے میں

دیوبند تاریخ و تمدّن کے آئینے میں


دیوبند تاریخ و تمدن کے آئینے میں

از: محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی


دیوبند اور دار العلوم میں چولی دامن کا ساتھ ہے، اور دونوں میں اتنا گہرا تعلق و ربط ہے کہ اگر صرف لفظِ دیوبند کا تلفظ کیا جائے تو ذہن بلا تامل دار العلوم ہی کی طرف جاتا ہے، اور اگر دار العلوم بولا جائے تو بھی اوّل وہلے میں ذہن و فکر اسی دیوبند کے دار العلوم کی طرف سبقت کرتا ہے، لہذا دار العلوم کے مکمل تعارف سے پہلے سرزمین دیوبند کی تاریخی و تہذیبی حیثیت سے آگاہی نہایت مفید ہے، چنانچہ چند اسی سے متعلق باتیں درج ذیل ہیں:

                 مولانا سید محبوب رضوی صاحب فاضلِ دار العلوم دیوبند اپنی کتاب تاریخ دیوبند میں رقم طراز ہیں ’’ دیوبند شمالی ہند میں ۲۹ درجہ ۵۸ دقیقہ عرض البلد اور ٧٧ درجہ ۳۵ دقیقہ طول البلد پر دہلی سے ۹۱ میل شمال کے جانب ضلع سہارنپور میں ایسٹرن پنجاب ریلوے پر واقع ہے، دیوبند کے شمال میں سہارنپور، جنوب میں مظفر نگر، مشرق میں بجنور، اور مغرب میں کرنال ہے، اس کے مشرق میں دریائے گنگا بہتا ہے اور مغرب میں دریائے جمنا، دیوبند ان دونوں مشہور دریاؤں کے وسط میں واقع ہے، شیر شاہ سوری کی وہ شاہراہِ اعظم جو کلکتہ سے پشاور تک پھیلی ہوئی ہے دیوبند سے گزرتی ہے‘‘ (حیاتِ عثمانی ص ٤٤) یہ تو دیوبند سے متعلق جغرافیائی تعارف ہوا، مزید اس شہر کی تاریخی و تہذیبی حیثیت پر نظر کی جاے تو پتہ چلتا ہے کہ دیوبند ضلع سہارنپور میں واقع ایک انتہائی قدیم آبادی ہے، اور اس کی قدامت کے حوالے سے بعض مورخین نے خیال کیا ہے کہ دیوبند طوفانِ نوح کے بعد آباد ہونے والے بستیوں میں سے ابتدائی آبادی ہے، سید محبوب رضوی کے بیان و تحقیق کے مطابق اس کے آثار و قرائن کچھ اس طرح کے ہیں کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بستی سکندرِ اعظم کے زمانے میں بھی تھا، دیوبند میں آباد قدیم ترین مندر ’’ دیوی کنڈ ‘‘ کے عقیدت مندوں اور پجاریوں اور کچھ ہندو مورخین کے مطابق اس کا تذکرہ مہابھارت میں بھی ملتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ مہابھارت کے دو تین بند ( اشلوک) ایسے ہیں جن میں دیوبند کا ذکر صراحت کے ساتھ ہے، بعض مورخین اس کی آبادی بکرما جیت کے زمانے سے بھی بتاتے ہیں، اور اس کے ثبوت میں محققین نے یہاں کے قدیم مکانات کے کھنڈرات، پرانے کنوؤں، قدیم ترین مندروں اور کچھ کتبوں کو پیش کر کے اپنے دعوے کو مدلل کیا ہے، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ’’ شہر کے ایک محلہ ’’سراے پیر زادگان‘‘ کے ایک کنویں میں سنسکرت زبان میں لکھا ہوا ایک پتھر لگا ہوا تھا، اب نہ تو وہ کنواں رہا، نہ وہ کتبہ، لیکن تاریخ دیوبند کے مصنف مولانا سید محبوب رضوی صاحب نے غالباً اسے دیکھا ہے، کیوں کہ ان کا بیان ہے کہ اس کتبے کو پڑھنے کی بے حد کوشش کی گئی، مگر اینٹوں کے گھس جانے کی وجہ سے حروف صاف طور پر معلوم نہیں ہوتے تھے، صرف نیچے کے جانب کسی قدر کا پتہ چلتا تھا، غالباً ۱۱۹ بکرما جیت کا تھا۔

                

                ڈاکٹر عبید اقبال عاصم صاحب کہتے ہیں کہ راقم نے دیوبند کے مشہور قدیم ترین مندر ’’دیوی کنڈ‘‘ کے اندرونی جانب ایک پتھر لگا ہوا دیکھا، جس کے بارے میں ماہرین آثارِ قدیمہ بھی فیصلہ نہیں کر سکے کہ وہ کس زبان میں ہے، اور کس زمانے کا ہے، مندر کے پجاریوں کا ماننا ہے کہ اس کے بارے میں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ یہ بکرما جیت کے عہد سے سیکڑوں سال پہلے کا ہے، محلہ قلعہ کے ایک کنویں کے متعلق یہ مشہور ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں جس کنویں میں دیوؤں کو قید کیا گیا تھا وہ یہی کنواں ہے۔ (دیوبند تاریخ و تہذیب کے آئینے میں ص ۳۷)

           اس کی کہنگی اور قدامت کی دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ دیوبند کے بطن اور آغوش میں کچھ ایسے بھی قلعے پاے جاتے ہیں جس کے متعلق مصنف تاریخ دیوبند کا بیان ہے کہ سلطان سکندر شاہ ( ۸۹٤-۹۲۳/ ١٤٨٨-١٥١٧ ) کے عہد میں حسن خان صوبہ دار نے قدیم عمارت کو مسمار کرا کر از سرِ نو پختہ اینٹوں کا تعمیر کروایا، آئینِ اکبری کے مصنف نے بھی اس قلعہ کا تذکرہ دیوبند کے تذکرے میں بطورِ خاص یہ کہ کر کیا ہے ’’ دیوبند قلعہ از خشت پختہ دارد‘‘ یعنی دیوبند میں پختہ اینٹوں کا قلعہ موجود ہے، ( دیوبند تاریخ و تہذیب کے آئینے میں ص ۳۷) مزید یہ کہ دیوبند چوں کہ قدیم ترین آبادی میں سے ہے، اور قدیم آبادی میں یہ خصوصیت عام طور پر پائی جاتی ہے کہ ان کی آبادی ہموار سطح پر نہیں ہوتی، کہیں نشیب ہے کہیں فراز، اس کا سبب ماہرین آثار قدیمہ کے نزدیک یہ ہے کہ حوادثِ زمانہ سے جب کوئی آبادی نیست و نابود ہوتی ہے تو زمین پر اپنا ارتفاعی نشان ضرور چھوڑتی ہے، اس اصول کے مطابق دیوبند کو اگر دیکھا جاتا ہے تو اس کی آبادی میں بکثرت نشیب و فراز نمایاں نظر آتے ہیں اور بعض تو یہ تفاوت تقریباً پچاس فٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ ( حیاتِ عثمانی ص٥٠)

            یہ تو دیوبند کے قدامت و کہنگی سے متعلق کچھ تاریخی روایات تھیں، اب آئیے چند ان اقوال و روایات اور تاریخی شواھد کو ملاحظہ کریں جو اس کے وجہِ تسمیہ سے متعلق ہیں، کہ لفظ دیوبند کی حقیقت و واقعیت کیا ہے، اور اس قصبے کا نام دیوبند کیسے اور کیوں پڑ گیا ؟ تو اس سلسلے میں یہ بات بنیادی طور پر ذہن میں رکھیں کہ اس تعلق سے حتمی و قطعی راے کسی بھی صورت میں پیش نہیں کی جا سکتی، کیوں کہ جتنے منہ اتنی ہی باتیں ہیں، البتہ ان‌ میں سے چند قرینِ قیاس اقوال و آرا کو ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔

(١)  ’’دیو‘‘ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے، اس مخلوق کے کچھ افراد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قدیم زمانے میں اس قصبے میں آباد تھے، اور یہاں پر اس کی حکمرانی تھی، نسلِ انسانی جب اس قصبے میں پہنچی تو انہیں اس مخلوق نے پریشان کرنا شروع کیا، تو حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں دیوبند کے باشندوں نے فریاد کی، آپ علیہ السلام کے عمال نے یہاں آ کر ایذا دہندہ و سرکش جناتوں کو ایک کنویں میں قید کر دیا، اور کہاں جاتا ہے کہ یہ کنواں محلہ قلعہ میں واقع تھا، چنانچہ دیوؤں کا یہ قید کیا جانا آگے چل کر سببِ تسمیہ بن گیا، اولاََ صرف کنواں دیوبند ہوا، پھر گزرتے زمانے کے ساتھ ساتھ محلہ اور محلہ سے بڑھ کر پوری آبادی کو ہی دیوبند کہا جانے لگا۔ ( لیکن اس قول کی کوئی تحریری دستاویز دستیاب نہیں ہے) 

(٢)  بعض مورخین نے اس کا اصلی نام’’دیوی بن‘‘ بتایا ہے اس کی وجہ ہندو عقیدے کے مطابق یہ ہے کہ یہاں کا مشہور مندر ’’ دیوی کنڈ‘‘ قدیم زمانے میں جنگل کے درمیان تھا، اور جنگل کو ہندی میں ’’بن‘‘ کہتے ہیں، لہذا ’’دیوی بن‘‘ رفتہ رفتہ دیوبند ہو گیا، یعنی اس مندر کا جنگلوں کے مابین ہونا ہی سببِ تسمیہ ہے۔

(٣)  کتب تاریخ اور جغرافیائی نقشوں میں یہ نام دیوبند اور دیبن کے نام سے ملتا ہے چنانچہ ہندوستان کے عہدِ اکبری کی مشہور و معروف تصنیف آئینِ اکبری میں اس جگہ کا نام دیوبند ملتا ہے، جب کہ اسی عہد کے معروف شاعر ملا عبد القادر بدایونی نے اپنی نظم میں اس جگہ کو ’’دیبن‘‘ کے نام سے نظم کیا ہے، علاوہ ازیں آٹھویں نویں صدی ہجری کے مشہور بزرگ شخصیت فالو قلندر کے مزار پر لکھے ہوئے فارسی اشعار میں اس شہر کا نام دیوبند ملتا ہے، مزید یہ کہ قیامِ دار العلوم دیوبند کے بالکل ابتدائی ایام تک بھی عوام الناس بالعموم ’’دیبن‘‘ بھی بولتے تھے، جیسے کہ مولانا عبد الکریم فروغؔ صاحب اپنی مثنوی ’’ مثنویِ فروغ‘‘ میں رقم طراز ہیں، جو کہ دار العلوم کی بالکل ابتدائی تاریخ پر منظوم پیرایۂ بیان میں مشتمل ہے۔

دیوبند اک شہر ہے مشہور تر

کشورِ ہندوستاں میں نامور

چوں کہ رکھتا ہے ثقالت بھی یہ نام

بولتے ہیں اس کو ’’دیبن‘‘ بھی عوام

            ( مثنوی فروغ ص ۱۹)

(٤) ڈاکٹر عبید اقبال عاصم اپنی کتاب  ’’دیوبند تاریخ و تہذیب کے آئینے میں‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ میں نے دیوی کنڈ کے پجاریوں اور کچھ بزرگ ہندؤں سے دیوبند کی وجہ تسمیہ معلوم کی، تو انہوں نے بتایا کہ یہ لفظ دراصل ’’دیوی ورند‘‘ تھا، جس کے معنی دیویوں کے جھرمٹ کے ہیں، ان کے عقیدے کے مطابق ماں شری تری پوری بالا سندری دیوی کے میلے کے موقع پر یہاں دیویوں کا ہجوم آتا ہے، اس وجہ سے اس جگہ کا نام ’’دیوی ورند‘‘ پڑا، جو کثرتِ استعمال سے دیو ورند، دیو وند اور پھر آخر میں دیوبند ہو گیا۔

یوں تو دیوبند ایک قدیم ترین آباد بستیوں میں سے ہے، (جیسا کہ سابقہ تحریر سے واضح ہو گیا) جس میں کئی مذاہب کے پیروکار قدیم زمانے سے بسے چلے آ رہے ہیں، لیکن دیوبند میں مسلمانوں کی آبادی کا پتہ ساتویں صدی ہجری سے چلتا ہے، خواجہ عثمان ہارونی (م ٦٠٨) کے ایک مسترشد قاضی دانیال قطری قطب الدین ایبک کے عہد میں یہاں عرصے تک مقیم رہے، اسی طرح محدثِ جلیل ابن الجوزی کے ایک تلمیذ التلمیذ شاہ علاء الدین جنگل باش کا مزار دیوبند کے جنوب مشرق میں زیارت گاہ خاص و عام ہے، دیوبند میں اب تک کچھ مسجدیں ایسی ہیں جو مسلم عہدِ حکومت کی تعمیر ہیں، بعض میں کتبے بھی لگے ہوئے ہیں، مثلاً مسجدِ قلعہ سلطان سکندر لودھی، مسجدِ خانقاہ شہنشاہ اکبر، اور مسجدِ ابو المعالی اورنگزیب کے عہد کی خوبصورت یادگار ہیں۔ ( تاریخ دارالعلوم دیوبند ج ۱ ص ۱۳۰)

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

تبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!