Header Ads Widget

مولانا سید طاہر حسین گیاوی: ایک عظیم مناظر، ایک عظیم فاتح

مولانا سید طاہر حسین گیاوی: ایک عظیم مناظر، ایک عظیم فاتح

مولانا سید طاہر حسین گیاوی: ایک عظیم مناظر، ایک عظیم فاتح



از قلم: محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی

متعلّم دار العلوم دیوبند



دارالعلوم دیوبند کے درسگاہِ دورۂ حدیث شریف میں بہ وقتِ قبلِ ظہر بندۂ ناچیز بعدِ تناولِ طعام بہ غرضِ مطالعہ و کتب بینی کے بیٹھا ہوا تھا، کہ کسی ضرورت کی بنا پر بندے نے اپنے موبائل کا ڈاٹا چالو کیا، کہ یک لخت یک بہ یک شوشل میڈیا کے مختلف ذرائع سے بے شمار خبریں بندے کے موبائل میں وارد ہوئیں، خبریں نظر نواز ہوئیں،تو پتا چلا کہ مناظر اسلام، ماحیِ سنّت، قاطعِ شرک و بدعت، فخرِ دیوبند، سلطان المناظرین حضرت مولانا سیّد محمد طاہر حسین صاحب گیاوی طویل علالت و نقاہت کے بعد ہم جملہ عاشقین کو داغِ مفارقت دے گئے، اور داعیِ اجل کے بلاوے پر بے اختیار لبیک کہہ گیے۔

خبریں سننی تھیں کہ ایک عجیب سا دچھکا لگا، دل مسوس کر رہ گیا، ذہن و دماغ میں غم‌کی لہریں دوڑنے لگیں، اور ناچارہ زبان سے بے ساختہ کلماتِ ترجیع جاری ہو گئی، انا للہ و انا الیہ رٰجعون!

                    مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب بندہ جامعہ عربیہ بحر العلوم قصبہ بھدرسہ ضلع فیض آباد (یو پی) میں اپنے زمانۂ طالبِ علمی کے بالکل ابتدائی ایام میں ہی تھا، اور عالمیت کے اوّل یا دوم درجے کا طالب علم تھا، تو غالباً سب سے پہلے میرے محترم و مکرّم رفیقِ درس مولوی محمد شفیع اللہ ہزاری باغوی نے بڑے ہی عقیدت مندانہ و والہانہ انداز اور لب و لہجے میں ان کا تعارف کرایا، اور گاہِ بہ گاہِ ان کی مناظرانہ ذہنیت، محققانہ دماغ، مباحثانہ مزاج اور مدقّقانہ فکر کا ذکرِ خیر دوران گھنٹہ درسگاہ میں ہی کرتے تھے، ان کے مناظروں کے روداد اور فتحیابی و ظفر مندی کے کتنے ہی حالات و واقعات بندے‌ کے گوش گزار کرتے رہے، تو اب لا محالہ ان سے عقیدت و انسیت پیدا ہونی تھی، سو ہوئی، ایک طرح کا قلبی و ذہنی رجحان، لگاؤ اور تعلّقِ خاطر سا پیدا ہو گیا،  اسی زمانے میں حضرت حافظ محمد یوسف حفظہ اللہ تعالی جن کی سرپرستی و نگرانی میں بندہ اس جامعہ میں زیرِ تعلیم تھا، ایک دفعہ اپنے کمرے میں بلاے اور میری تعلیمی بے توجہی اور کمزوری پر زجر و توبیخ کرتے ہوے بہ طورِ تحریض و تشویق کے کہنے لگے، کہ اس طرح بے التفاتی و بے اعتنائی اور کھیل کود کے ساتھ پڑھنے کا کیا فائدہ ہوگا، پڑھنا ہے تو ڈھنگ سے پڑھو، اور اگر عالم و فاضل بننا ہے تو مولانا طاہر حسین گیاوی جیسا بنو، کہ نام سنتے ہی عوام و خواص کے قلب و جگر میں رعب و دبدبہ قائم ہو جاے، کوئی مسئلہ بیان کرو تو کوئی ٹوکنے کی جرأت نا کرے، اور نا ہی کوئی الجھنے کی ہمّت کر سکے،  ان کا نام سننا تھا کہ یک لخت حاشیۂ خیال میں یہ بات آئی کہ ارے یہ تو وہی طاہر گیاوی صاحب ہیں نا، کہ جن کے مناظرانہ واقعات و کرامت ابھی چند ہی ایام قبل سن رکھا ہوں، اور جو اب میرے پسندیدہ شخصیات اور محبوب لوگوں میں سے ہیں، خیر بات آئی،گئی، ہو گئی۔

         یہ بندے کا حضرت والا کی شخصیت سے تعارفِ اوّلیں کا پس منظر تھا،اب آگے زمانہ اپنا مزید سفر طے کرتا رہا، صبح و شام ہوتی گئی، دن و رات آتے گیے، تا آں کہ میں مزید علمی تشنگی کی سیرابی کے لیے سہارنپور کے لیے رختِ سفر باندھا، یہاں پر میں نے آپ کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور خوب لگن سے کیا، ان کی تقریریں سنیں تو اب مزید عقیدت میں اضافہ ہی اضافہ ہونے لگا اور یہ بات بالکل آفتابِ نیم روز کی طرح بندے پر بھی آشکارا ہو گئی کہ یقیناً حضرت مولانا سید طاہر حسین گیاوی رحمۃ اللہ علیہ مناظرانہ ذہن، محقّقانہ طبع و مزاج، کے حامل شخصیت ہیں، بے باک، برجستہ گو،قادر الکلام، حاضر الجواب، مُسکِت و مفحِم، شعلہ بیاں مقرر، آتش فشاں خطیب ہیں، اور حقیقت و اصلیت بھی یہی ہے کہ حضرتِ والا اپنے خطیبانہ گھن گرج سے مجمع اور محفل میں سحر طاری کر دینے کا ہنر جانتے ہیں، ان کی طلاقتِ لسانی، شعلہ بیانی اور سحر لسانی کی بنیاد پر اہلِ محفل پر سکوت طاری ہو جاتا ہے، اور کان علی رؤوسھم الطیر کا سماں بندھ جاتا ہے، آپ کی خطابت و گفتگو میں دلائل کی قوّت، بیان کی طاقت، حسنِ پیش کش میں انفرادیت، اسلوبِ اظہار میں جاذبیت، عالی ہمّتی، اور بلند حوصلگی نمایاں طور پر واضح ہوتا تھا، آپ کی زورِ بیانی اور طلاقتِ لسانی کے سامنے اچھے سے اچھا حریف و حلیف مبہوت اور طفلِ مکتب نظر آتا، علماے حق کے خلاف چلنے والی ہر باد سموم کے خلاف آپ آہنی دیوار ثابت ہوے، باطل کے لئے شمشیرِ ے نیام رہے، آپ نے اپنی حیاتِ مستعار میں بے شمار مناظرے اور مباحثے کیے، اور  اپنی خداداد استعداد و قابلیت، اپنی جہد و سعی اور کد و کاوش کی بنا پر سارے ہی مناظروں میں بازی لے گیے، ہر میدان میں فتح و ظفر ان کی قدم بوسی کرتی گئی، اور وہ مردِ میداں بڑی ہی کامیابی اور اقبال مندی کے ساتھ ایک سے ایک مناظرے فتح کرتے گیے، شکست و ریخت اور ہزیمت و پسپائی کو اپنے اردگرد بھٹکنے کا موقع بھی نہیں دیتے تھے، حتی کہ آپ ملک و بیرونِ ممالک میں فاتحِ بریلویت و غیر مقلدیت کے نام سے جانے پہچانے لگے، اور آپ کی شناخت و تعارف ایک عظیم مناظر، بے باک خطیب جیسے القاب و خطابات سے ہونے لگا،  آپ کی شہرت اندروں و بیرونِ ممالک میں روز بہ روز پھیلتی گئی، اور آپ کے نام کا ڈنکا دور دور تک بجنے لگا کہ جس سے  آپ کا رعب و دابِ اور خوف و سطوت اس قدر باطل کے دلوں میں پیوست ہو گیا کہ ان کے لیے  نامِ طاہر ہی موت کا منظر پیش کرتا، در حقیقت آپ کی مناظرانہ شان و شوکت نا قابلِ بیاں ہیں، ان کو الفاظ و حروف کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔

        آپ نے خصوصاً رضاخانیت و بریلویت کے شیش محل پر ایسے ایسے زہر آلود تیر و نشتر اور سنگ و خنجر مارے، اور قصرِ باطل پر اس انداز سے آتش نوائی اور شعلہ فشانی کی، کہ بریلویت میں کراہنے اور سسکنے کا بھی دم نا رہا، چہ جاے کہ شور و واویلا مچاتی، بدعات کے تعاقب کا فریضہ آپ نے اپنی زندگی کا نصب العین بنایا،  یہی تو وجہ تھی حلقۂ بریلویت میں جب ان کے حملے کی تاب و تواں نا رہی تو ان کے جانب سے انتہائی شرم ناک اور انسانیت سوز ردِّ عمل منصّۂ شہود پر آیا، اہلِ بدعت نے اندرونِ خانہ ایسی ایسی سازشیں رچی کہ شرافت و وضع داری ان کے محض تصوّر سے کانپ اٹھتی ہے، آپ کو حادثات کا نشانہ بنایا گیا، آپ کے زندگی کے چراغ کو گل کرنے کی بارہا کوششیں کی گئی، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ باطل اپنے تمام تر سازشوں میں ناکام رہا، ان کے حصے میں ہزیمت و پسپائی کے سوا کچھ نہ آیا،  ہر منصوبوں میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، اور ان کے ارادوں پے پانی پھر گیا۔ 

               باطل آپ کے نام نامِ اسمِ گرامی سن کر دم بخود ہو جاتا، اور اس انداز سے دُم دبا کر بھاگتا جیسے کہ چوہا بلّی کا نام سنتے ہی اپنے بِل اور پناہ گاہ کی تلاش و جستجو میں سرگرداں بھاگتا نظر آتا ہے، آپ اپنی زندگی میں ہی بریلویت کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں کامیاب ہو گیے تھے، کہ جس سے پوری ذریتِ بریلویت تا دمِ ایں محوِ آہ بکا و نالۂ و فغاں ہیں، اور دوبارہ رو بہ رو ہونے کے نام سے بھی سونگھے ہوے سانپ کے مانند ہو جاتا ہے، بلآخر رہی سہی کسر کو توڑنے کے لیے آپ نے تابوت بریلویت میں  آخری میخ بھی ٹھونک ہی دی۔

 

تبھی تو جنابِ شاعر نے کہا۔  


مچا ہے زلزلہ ان سے بریلی شیش محلوں میں

رضاخانی کی خاطر ہے وہی تیر و کماں اپنا 

سنا ہے نامِ طاہر سے بھی باطل دل لرزتا ہے

بدلتا راہ ہے اپنی بچاتا جسم و جاں اپنا

        (غازی ہزاری باغوی)


خاک اور خوں میں ملایا اہلِ بدعت کا مشن 

قصرِ باطل پر برابر شعلہ برساتا رہا

نامِ طاہر ہی کی سطوت سے سبھی لرزیدہ ہیں

رو بہ رو ہونے کو باطل ان سے گھبراتا رہا

       (غازی ہزاری باغوی)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے