Header Ads Widget

طوطیِ ہند ملک الشعرا جناب امیر خسرو: تعارف و تجزیہ

 طوطیِ ہند ملک الشعرا جناب امیر خسرو: تعارف و تجزیہ



طوطیِ ہند ملک الشعرا جناب امیر خسرو: تعارف و تجزیہ

از: محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی

سرزمینِ ہند میں پیدا ہونے والے منفرد ہستیاں، یگانۂ روزگار، نابغۂ زمانہ جنہوں نے اپنے علم و فضل، اور فن و کمال کی بنا پر اس طور پر فائق الاقران  ہوے کہ دنیا ان کا مثل اور نمونہ پیش کرنے سے قاصر ہے، اس زرخیز سر زمین سے ایسے ایسے اہلِ علم و اہلِ کمال اور آفتابِ علم و فن نمودار ہوے کہ دنیا ان کی شخصیت، نام اور خدمات پر ناز کرتی ہے، جن کے تذکرے سے تاریخ کے اوراق و صفحات تابندہ و درخشندہ ہیں، انہیں جلیل القدر،مایۂ افتخار، قابلِ رشک، باعثِ فخر، ہستیوں میں سے جناب امیر خسرو بھی ہیں، کہ جن کا نام ہندوستانی شاعری کی تاریخ میں مہرِ نیم روز کی طرح ہے، جن کی ضیا پاشیوں سے یہاں کی بیش از سات سو سالہ ادبی و شعری تاریخ منور ہے، جن کے سرمدی نغمے،دل آویز اشعار،وجد آفریں و شیریں اندازِ سخن کانوں میں رس گھولتی ہیں، جن کے اشہبِ قلم نے اپنے کمالات کے لافانی جوہر دکھلاے ہیں، اور جن کی نکتہ شناس نظر نے حسن و جمال، جدّت پسند طبیعت نے رعنائی و زیبائی اور مضموں آفریں دماغ نے دل آویز کلام کا مجموعے ترکے میں چھوڑے، اور جو لسانی و ادبی حیثیت سے فارسی و ہندوستانی شاعری میں امام اور اردو زبان و ادب کے معمارِ اولیں شمار کیے جاتے ہیں۔

جائے ولادت و خاندانی پس منظر

            امیر خسرو ترکی النسل تھے، جو لاچینی قبیلے ( لاچین در اصل ترکی لفظ ہے، بمعنی شاہین، چوں کہ اس قبیلے کے لوگ نہایت جری و بے باک تھے، اور ان کی بہادری شہرت یافتہ اور زبان زد عام تھی، لہذا ان کی شجاعت و دلیری کو شاہین پرندے سے تشبیہ دے کر ان کا نام ہی لا چینی رکھ دیا گیا ) سے تعلّق رکھتے تھے، ان کے آباء و اجداد چنگیزیت و تاتاریت کے عہدِ جور و ستم میں ماوراء النہر سے ہندوستان میں دہلی کے تقریباً سو میل کے فاصلے پر ضلع ایٹہ کے مقام پٹیالی میں قدم رنجہ ہوے، اور یہیں پر سکونت اختیار کی، اس وقت دہلی کے تخت پر سلطان محمد تغلق بر اجمان تھا، چوں کہ خسرو کے والد امیر سیف الدین محمود نہایت ذکی و فطین، شریف و قابل اور متعدّد خوبیوں کے مالک تھے، بر ایں بنا سلطان نے آپ کی قدر دانی کی، اور اس طرح آپ سلطان کے دربار سے وابستہ ہو گئے، سلطان کے خاص معتمدین میں سے ہو گئے، اسی دوران آپ کی شادی صاحب کمال بزرگ نواب عماد الملک کی صاحبزادی سے ہوئی، جو خود بھی اپنے والد کی طرح زہد و تقویٰ کے زیور سے آراستہ و پیراستہ تھی، امیر سیف الدین کے یہاں تین لڑکے پیدا ہوے (١) اعز الدین علی شاہ (٢)ابو الحسن یمین الدین (٣) حسام الدین۔  ان تینوں میں سے منجھلے یعنی ابو الحسن ہی ہیں جنہوں نے اتنی ذہانت و فطانت، لیاقت و قابلیت کی بنیاد پر اپنی شخصیت کا سکّہ عوام سے لے کر خواص، رعایا سے لے کر شاہِ دربار تک ہر ایک کے دل میں بٹھایا، اور ایک زندۂ و جاوید ہستی بن کر امیر خسرو کے نام سے شہرتِ دوام حاصل کی، اور علم و فن شعر و سخن کے آسمان میں آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے۔


آپ کی ولادت ٦٥١ھ  مطابق ١٢٥٣ء میں بتایا جاتا ہے، چوں کہ آپ نجیب الطرفین تھے، اور آپ کی پرورش و تربیت ایک صالحہ اور پارسا صفت خاتون کے آغوش میں ہوئی تھی، اور آپ کے حق میں دعائیں، پیشین گوئیاں بزرگوں کے زبان سے عہدِ طفولیت میں ہی ہو چکی تھی، لہذا آپ کے والد امیر سیف الدین نے خسرو کو چار سال ہی کے عمر میں اربابِ فضل و کمال کا شہر دہلی لے آے، جہاں پر ایک طرف سلطان التمش اور دیگر درباری حضرات تھے، جو خود بھی علم شناس اور علم نواز تھے، وہیں دوسری طرف اہلِ علم و فن اور صاحب فکر و نظر کی ایک پوری جمعیت اور گروہ آباد تھی، جن کے وجود و صحبت نے دو آتشہ کا کام کیا، اور آپ کے حوصلے مہمیز پا کر بامِ عروج تک پہنچ گئے، 

        

لیاقت و کمال

آپ ابھی اپنے عمر کے دس سال ہی میں تھے کہ آپ بہت جلد شعر موزوں کر لیتے تھے، جن کو سن کر لوگ ورطۂ حیرت میں پڑ جاتے، اور آپ کی قابلیت و لیاقت کے دلدادہ و گرویدہ ہو جاتے، ایک مرتبہ آپ کے استاذ قاضی اسد الدین اپنے ہمراہ قاضی عز الدین کے گھر لے گئے، اور قاضی عز الدین سے عرض کیے کہ یہ میرا شاگرد ہے، جو اپنی کم سنی و نو عمری کے با وصف بلند پایہ اشعار کہ لیتا ہے، تو قاضی عز الدین نے امتحاناََ امیر خسرو کو چار مختلف الفاظ دیۓ اور نظم بندی کر کے سنانے کو کہا، امیر تو امیر تھے چند ہی لمحوں میں بر جستہ ایک رباعی موزوں کر کے خدمت میں پیش کر دیے، جو  نہایت عمدگی کے ساتھ بر محل الفاظ کے استعمال سے مزین تھا، اس واقعے کے بعد امیر خسرو کی شہرت کہیں سے کہیں پہنچ گئی، اور بڑے بڑے عالم و فاضل ایک بچے کی قدر کرنے لگے، قاضی عز الدین ہی کے کہنے پر آپ نے اپنا تخلص سلطانی رکھ لیا جس کو امیر خسرو نے جستہ جستہ مقام پر اس کو استعمال بھی کیے ہیں، 1272ء میں ان کا پہلا دیوان’’تحفۃ الصغر،، کے نام سے منظرِ عام پر آیا، جس میں آپ نے سلطانی تخلص کا استعمال کیا ہے، اس دیوان میں کل ۳۵ قصائد، پانچ ترجیح بند اور ترکیب بند، متعدد قطعات اور ایک چھوٹی مثنوی ہے، قدرت نے آپ کو ذہن رسا اور صنّاع دماغ عطا فرمایا تھا، مختلف لغت و زبان کے آپ ماہر و شناور تھے، فارسی تو آباء و اجداد کی زبان تھی، ہندی والدہ سے ترکے میں آئی تھی، مزید یہ کہ ترکی و سنسکرت میں عبور و کمال پیدا کر کے عربی میں بھی اچھی خاصی استعداد پیدا کر لیے تھے، آپ ہی نے حضرت محبوبِ الٰہی کے حکم سے سب سے پہلے اردو کی داغ بیل ڈالی، اور اس کا نام اولاً ہندوی رکھا، اور اردو کے پہلے شاعر آپ ہی کی ذات والا صفات ہیں، اور یہ اردو زبان کے لیے خوش بختی اور نصیبے کی بات ہے کہ اسے خسرو جیسا عظیم و ہمہ گیر گو نا گوں صلاحیتوں سے لیس شاعر و نثرنگاری دستیاب ہوا، اردو زبان جس لسانی، تہذیبی و معاشرتی بو قلمونی کا آئینۂ دار ہے دراصل اس کی اساس خسرو ہی کی شخصیت کا دین ہے۔


شاہانہ دربار سے وابستگی

امیر خسرو اس اعتبار سے بہت خوش بخت اور زہے نصیب تھے کہ آپ نے یکے بعد دیگرے گیارہ بادشاہوں کا زمانہ پایا اور دیکھا، اور خسرو کی پوری زندگی شاہانہ درباروں سے وابستگی میں ہی گزری، متعدد امراء حکما سے متعدد اوقات میں نہایت حسین و خوشگوار تعلقات رہے، انہوں نے دہلی کے تخت و تاج پر کئی سلطانوں کو بچشمِ خود براجمان ہوتے دیکھا، سلطنت کے عروج و زوال کے واقعات کا مشاہدہ کیے، ہر ایک کے یہاں آپ قابلِ قدر اور معزز حیثیت سے رہے، شاہی فتوحات کو کئی ایک منظوم و منثور تصانیف میں قلم بند بھی کیے،غیاث الدین بلبن سے لے کر کتلو خان، بغرا خان، ملک محمد خان، خانِ جہاں، کیبقاد، جلال الدین خلجی، علاء الدین خلجی، اور غیاث الدین تغلق تک ان میں سے اکثر سلطان کے منظور نظر اور ندیم خاص رہے، ہر ایک نے آپ کے لیے دلدادگی اور قربت کا مظاہرہ کیا، اور تمام بادشاہوں نے آپ کی حوصلہ افزائی کی، اور خراج تحسین پیش کیا، کئی بادشاہوں کے ساتھ جنگی معرکہ آرائی میں بھی شریک رہے، فتح و شکست کے حالات سے بھی دو چار ہوے، بعض جنگی احوال کو سلطان کے فرمائیش بر قلم بند بھی کیے، آپ کی کئی تصانیف اسی طرح کے جنگ و جدال اور  غلبۂ و ہزیمت کی داستان پر مشتمل ہے، خسرو نے کیقباد کی فرمائش و طلب پر اس کے والد بغرا خان کی ملاقات کے احوال کو نظم میں ڈھالا جس کی بنا پر بادشاہ نے آپ کو خلعت شاہی، مہر زر، اور ملک الشعرا کے خطاب سے سرفراز فرمایا،

عادات و اطوارخسرو

سرو جہاں ایک بلند پایہ موسیقی کار، جلیل القدر ادیب، با کمال شاعر و نثرنگاری تھے، وہیں آپ ایک سچے پکے دیندار اور خوش اخلاق مسلمان بھی تھے، یہ آپ کے اخلاق کی بلندی ہی کی دین تھی کہ آپ بلا امتیازِ مذہب و ملت ہر طبقے میں مقبول و محبوب رہے، ہر ایک کے یہاں عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھے گیے، اگر چہ آپ نے دولتمند گھرانے میں اپنی آنکھیں کھولی، ناز و نعم کے ساتھ پرورش پائی، ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو بادشاہوں اور نوابوں کے درمیان پایا، مزید یہ کہ آپ اپنی خداداد صلاحیت کی بنا پر زر و جواہر سے نچھاور کیے گئے، پوری زندگی بادشاہوں کی مصاحبت میں گزری، مگر آپ سراپا عاجزی و انکساری بنے رہے، معمولی درجے کے لوگوں کا خیال رکھتے، حاجت مندوں کی حاجت روائی میں بساط بھر کوشش کرتے، کسی کو کھالی نہ بھیجتے، مزاج میں تکلف اور دماغ میں رعونت نام کو نہ تھی، مولانا عبد الماجد دریابادی آپ کے متعلق یوں خامہ فرسا ہیں ’’ امیروں میں امیر، فقیروں میں فقیر، عارفوں کا سردار، شاعروں کا تاج دار، شعر و ادب کی دیوان اس کی ادبی عظمت کے گواہ، خانقاہیں اور سجادے اس کے مرتبۂ روحانی سے آگاہ، سرِ مشاعرہ آ جائے تو میرِ محفل اُسے پائیے، خاندانِ چشت اہلِ بہشت کے کوچے میں آ نکلیے تو حلقۂ ذکر و فکر میں سرِ مسند اس کا جلوہ دیکھیے، اچھے اچھے شیخ دم اس کا بھر رہے ہیں، معرفت و طریقت کے خرقہ پوش کلمہ اس کے نام کا پڑھ رہے ہیں‘‘ ( حضرت امیر خسرو 46 محمد فاروق جوہر)

شاعرانہ کمال

      امیر خسرو نے عنفوان شباب ہی سے شعر و شاعری کی سرگرمیاں شروع کر دی تھی، آپ کی موزوں طبیعت نے بہت جلد ہی شعر و سخن کے مزاج سے آشنائی حاصل کر لی، غزل ہو یا قصیدہ، مثنوی ہو یا رباعی، گیت ہو یا مرثیہ، ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی، ،ہر ایک فن کو دادِ تخلیق عطا کی، اور اصحابِ فن سے داد تحسین و آفرین حاصل کی، آپ کے معاصرین نے بھی آپ کے کمالِ فن اور آپ کی شاعرانہ قابلیت و انفرادیت کے متعلق کھل کر اعتراف کیا ہے، اور آپ کے بعد والوں نے بھی آپ کے شاعرانہ عظمت کے تذکرے کیے ہیں، علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ شعر العجم میں رقم طراز ہیں ’’ ہندستان میں جھے سو برس سے آج تک اس درجے کا جامعِ کمالات نہیں پیدا ہوا، اور سچ پوچھو تو اس قدر مختلف اور گو نا گوں اوصاف کے جامع ایران و روم کے خاک نے بھی ہزاروں برس کی مدت میں دو چار ہی پیدا کیے ہوں گے، صرف ایک شاعری کو لو تو ان کی جامعیت پر حیرت ہوتی ہے، ( عکس و نقش از نایاب حسن)

چند مشہور زمانہ کلام جو آج بھی زبان زد اور کتابوں کی زینت اور محفلوں کی رونق ہے، اور آپ کی فنکارانہ نابغیت کا آئینہ دار بھی ہے،براے ملاحظہ بطور نمونہ کے درج ذیل ہے:


من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جاں شدی

تا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری


نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم

بہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم



ہر دو عالم قیمتِ خود گفتہ ای

نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز

اس میں شاعر اپنے محبوب سے خطاب کر رہا ہے کہ تم نے دونوں عالم کو جو اپنی قیمت بتایا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمہارے حسن و جمال کے سامنے تو یہ کم قیمت معلوم ہوتا ہے، لہذا قیمت میں اضافہ کریں۔ 


خسرو بہ کمندِ تو اسیر است

بیچارہ کجا رود زکویت

اس میں شاعر خود کو محبوب کے سامنے عاجز بیچارہ بنا کر کس خلوصِ محبت کا اظہار کیا ہے،  خسرو تو تمہارے کمندِ محبت کا اسیر ہے، بے چارہ تمہاری گلی سے نکل آخر کہاں جاے۔

ایک اور مشہور زمانہ غزل جو آج بھی اپنی اندر رعنائی و تازگی لیے ہوئے ہے، جو مختلف زبانوں کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے، جس میں آپ کی سادہ زبانی اور سہل نگاری بھی جھلکتی ہے، اور اپنے اندر کشش و مقناطیسیت بھی رکھتی ہے، چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔  

زحالِ مسکیں مکن تغافل دُراے نیناں بناۓ بتیاں

کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں

شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمر کوتاہ

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

چوں شمعِ سوزاں، چوں ذرۂ حیراں ہمیشہ گریاں بہ عشق آں ام

نہ نیند نیناں، نہ انگِ جیناں، نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں

تصانیف

آپ بلند خیال و ہفت زبان شاعر، انشا پرداز، تصوّف، تاریخ، ادب، موسیقی کے بھی ماہر تھے اور ان فنون میں یدِ طولی رکھتے تھے، محتاط انداز کے مطابق آپ نے صرف فارسی زبان میں پانچ لاکھ اشعار کہے، اور ممکن ہے کہ ہندوی و پنجابی وغیرہ میں بھی اتنے ہی کہے ہوں، مختلف موضوعات پر آپ کی کتابیں تقریباً ۹۰ سے بھی زائد بتاے جاتے ہیں، جن میں سے اکثر و بیشتر نایاب و نا پید ہیں، اور بیس بائیس کے قریب کتابیں دستیاب ہو سکی، جن میں سے چند درج ذیل ہیں

 ۱ مطلع الانوار۔   اس کا موضوع بند و نصیحت اور اخلاق و تصوف ہے، جو 1298ء میں صرف دو ہفتے میں مکمل ہوئی

۲  لیلیٰ مجنوں۔  نظامی کی مثنوی لیلیٰ و مجنوں کا جواب ہے 2650 اشعار پر مشتمل ہے، سن تصنیف 1299ء ہے 

۳  ہشت بہشت۔  نظامی کی مثنوی ہفت پیکر کا جواب ہے، اس میں 1350 اشعار شامل ہے، اور یہ 1301ء کی تصنیف ہے،

٤۔ آئینۂ سکندری۔  نظامی کی مثنوی سکندر نامہ کے جواب میں 1299ء میں لکھی گئی ہے،

۵۔  تغلق نامہ۔  اس میں غیاث الدین تغلق کی دہلی میں تخت نشینی، فوج کشی، اور اس کے کامیابیوں اور حصول یابیوں کا تذکرہ لکھا ہے 

اس کے علاوہ میں خزائن الفتوح، رسائل الاعجاز، نہایۃ الکمال، غرۃ الکمال،عشقیہ، وسط الحیاۃ، قصۂ چہار درویش، بقیہ نقیہ، قران السعدین، تحفۃ الصغر، تاج الفتوح، تاریخ علائی، جواھرِ خسروی، نہ سپہر، افضل الفوائد، وغیرہ بطورِ خاص قابلِ ذکر ہے۔


وفات 

خسرو غیاث الدین تغلق کے ساتھ بنگال کے سفر میں تھے، کہ وہیں پے ان کے مرشد و مولا محبوب الٰہی کی وفات کی خبر ملی، فوراً حواس باختہ ہو گیے، بھاگم بھاگ دہلی آئے، غم و آلام کے مارے بے حال بلکہ بد حال ہو گیے، سارے اسباب و دولت صدقہ کر دیے، پورے چہرے پر سیاہی مل لی، اور بے تابانہ خانقاہ کی طرف روانہ ہوئے، دیکھا کہ مرشد قبر کے اندر آسودۂ خواب ہیں، فرمایا ’’ سبحان اللہ آفتاب در زیرِ زمیں و خسرو بر زمیں زندہ‘‘ محبوب کے فراق میں خود کو گھلانے لگے، دنیوی امور سے کنارہ کش ہو گئے، بالآخر چھے ماہ بعد اکتوبر 1325ء مطابق ٧٢٥ھ میں آپ کا بھی پیمانہ حیات لبریز ہو گیا، اور داعئ اجل کو لبیک کہہ گیے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے