Header Ads Widget

عبقریتِ آزاد

 عبقریتِ آزاد 

عبقریتِ آزاد



از قلم:  محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی

قد طویل نا قلیل، متوسّط قامت، اکہرا بدن، گورا رنگ، کتابی چہرہ، سفید چھوٹی ڈاڑھی، شاہیں نظر،  بڑی بڑی متحرّک اور روشن آنکھیں، آخر عمر میں رنگین شیشے کا غلاف، آواز بلند و پُر جلال، مزاج میں تمکنت و وقار، خلقتاً خلوت پسند و گوشۂ نشیں، طبیعت باغ و بہار، عجم کے حسنِ طبیعت، عرب کے سوزِ دروں کا پیکر، زہد و استغنا اور صبرِ جمیل کا مجسّمہ، خوش رو و خوش پوشاک، مشرقی شرفا کا لباس زیبِ تن کیے ہوے، سر پے اونچی کالی ٹوپی، نزاکتِ طبع اور نفاست ذوق کا یہ عالم کہ لوگ گلاب کا پنکھڑیاں کہیں، اور یوں بھی کہا گیا کہ اگر آپ کے تلوے کے نیچے انسانی بال آجاے تو پاؤں میں موچ آ جائے،  غیرت و خود داری اور مستقل مزاجی و وضع داری کا یہ عالم کہ دس سالہ وزارت کے بعد بھی لباس و پوشاک پیوند زدہ پاے گیے، زبان و بیان کے دھنی و ماہر، بلکہ خود مختار بادشاہ اور عصری فرمارواں تھے، پورے متحدہ ہندوستان میں ان سے بڑا کوئی گفتگو طراز اور زباں شناس نہیں، گویا زبان ان کی لونڈی، بیان ان کا پیش کار، صبحِ زندگی سے لے کر شانِ حیات تک سیکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں تقریریں کر ڈالی، ہر تقریر سراپا انتخاب بلکہ اپنی جگہ لاجواب،جب گفتگو پہ آتے تو دل و دماغ اور زبان معراج پر ہوتے، مخاطب و سامع صرف مست ہی نہیں ہوتے، بلکہ بے اختیار ہو کر سر دھننے لگتے، وجدان و سماعت جھومنے لگتی، قلم کے ایسے دھنی کہ بقول رشید احمد صدیقی الفاظ کو ربوبیت و نبوت کا جامہ پہنا دیتے، اور اور دل و دماغ سوچنے کے بجائے پوجنے کی طرف چلا جاتا، ایک ہمہ گیر و ہمہ جہت شخصیت و کردار کے حامل تھے، علما کی جماعت میں امام الہند حلقۂ ادیبان میں یگانۂ روزگار، مشاعروں میں سحر طراز سخنور، مدبروں میں سرخیل، سیاست دانوں کے مابین منفرد و ممتاز، اس طور پر کہ سیاست کے کوچے میں جوں ہی قدم رنجائی کی دیکھتے ہی دیکھتے صفِ اوّل کے قائدین میں شمار ہونے لگے، حتی کہ سردار پٹیل جیسوں سے اپنا سیاسی مہارت و بصیرت کا لوہا منوا لیا، گاندھی اور نہرو تو جیسے ان کا کلمہ ہی پڑھنے لگے، کلمہ ان کے فصاحت و جزالت اور پُر جوش خطابت کا نہیں، بلکہ ان کے فہم و فراست کا، دانش و بینش کا، دور بینی و دقیقہ رسی کا، تفکّر و تدبر کا۔ 

علمی مرتبت اس قدر بلند کہ تمام معاصرین ان کی شان میں رطب اللسان نظر آے، کیوں کہ آپ یک جہت نہیں بلکہ ہمہ جہت تھے، تفسیر میں یکتا، ترجمے میں منفرد، حدیث و فقہ میں بے مثال و عجوبہ روزگار، ادب میں بحر نا پیدا کنار، شاعری کا معدن اور نثر میں رستم و اسفندیار، علم و عرفان کا آبشار، صحافت کا شہسوار، جن کا ہر نقش شاہکار، سیاست میں ذی وقار، غرض کہ مولانا آزاد کمالات فاضلہ و صفات کاملہ سے متصف تھے، اور آپ کی شخصیت جامعیت کا شاہکار تھی۔

مولانا ابوالکلام آزاد اور آپ کا جاری کردہ ہفت روزہ الہلال دونوں بہ مثلِ گل و بلبل لازم و ملزوم تھے، الہلال اگر شمع تھی تو مولانا آزاد اس کے پروانہ، الہلال ناقہ تھا تو آزاد اس کے حدی خواں تھے، الہلال کارواں تھا تو مولانا آزاد میرِ کارواں تھے، الہلال کی زبان ایک تحریک کی زبان تھی، الہلال عہدِ ماضی کو یاد دلانے اور غفلت سے بیدار کرنے کے لئے نفخِ اسرافیل تھا، مولانا آزاد کی شخصیت الہلال ہی سے طلوع ہوتی ہے، ترجمان القرآن کے توسط نصف النہار کے تابندہ آفتاب کی طرح ضَوفشاں ہو جاتی ہے، اور پورے اطرافِ عالم میں اپنے جلوے بکھیر دیتی ہے، الہلال مذہب، سیاست، معاشیات، نفسیات، جغرافیہ، تاریخ، سوانح، ادب و انشا کا حسین مرقع تھا، مولانا آزاد کا طرزِ تحریر، اسلوبِ نگارش، پیرایۂ اظہار سحر سامری سے کوئی کم نا تھا، آپ کا قلم اردو زبان و ادب کا معجزہ تھا، جن کی تقلید تقریباً نا ممکنات میں سے تھی، آپ جہاں اپنے اسلوب کے موجد، طرزِ ادا کے بانی تھے، تو وہیں اس کے خاتم بھی تھے، آپ نے اردو اسلوب کو متانت و ثقاہت اور لطافت و نزاکت بخشی، شوکت و عظمت اور بسالت و جلال سے چار چاند لگا دیے، آپ کی شوخیِ تحریر اور حسنِ نگارش کے متعلق علامہ شبلی فرماتے ہیں کہ میں ایجاز کا بادشاہ ہوں ابو الکلام اطناب کا بادشاہ ہے، عطاء اللہ شاہ بخاری فرماتے ہیں کہ الہلال نے مجھے خطابت سکھائی، سیاست پڑھائی، اور زبان کی ندرت بخشی،  مجاہدِ ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی فرماتے ہیں کہ مجھے سیاست کا چسکا الہلال نے ڈالا، اور ابو الکلام آزاد نے میدانِ رست خیز میں لا کھڑا کیا، ڈیسائی لکھتے ہیں کہ مولانا کمالات و محاسن کا ایسا نمونہ ہیں کہ ان کی ذات ہندستان کا علم، یونان کے فلسفے، حجاز کے حافظے، ایران کے حسن، اور جدید یورپ کے دانشِ علم سے پُر نظر آتی ہے،  مولانا سعید احمد دہلوی ترجمان القرآن کے بارے میں فرماتے ہیں کہ مولانا آزاد نے قرآن کریم کی عربی مبین کو اردوے مبین کے حسین قالب میں ڈھال دیا، گاندھی جی نے کہا کہ مولانا علم کے بادشاہ ہیں، میں انہیں افلاطون، ارسطو، فیثاغورث کی طرح ایسا ہی انسان سمجھتا ہوں وہ تاریخ کے بہت بڑے عالم ہیں، کوئی بھی ان کا ہم پایہ نہیں، آپ جس موضوع پہ گفتگو کرتے گویا معلوم ہوتا کہ یہ انہیں کا مخترع و خانہ زاد ہے۔

درحقیقت ابو الکلام بیسویں صدی عیسوی میں قدرت کا سب سے بڑا عطیہ اور معجزۂ الہیٰ تھا، ایسی عبقری شخصیت زمانوں میں نہیں بلکہ صدیوں میں جب نرگس ہزاروں سال اپنی بے نوری پے نوحہ خوانی اور گریہ و زاری کرتی ہے تب جا کے پیدا ہوتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے