Header Ads Widget

اکابر علمائے دیوبند کی خدمات حدیث

اکابر علمائے دیوبند کی خدمات حدیث


اکابر علمائے دیوبند کی خدمات حدیث


بقلم: محمد یاسر رگھولی


بلاشبہ دارالعلوم دیوبند نے جہاں اسلام اور مسلم تہذیب کی حفاظت و بقا کا سامان کیا وہیں دینی علوم خصوصا علم حدیث کی خدمت اور اس کی اشاعت میں زبردست کردار ادا کیا دارالعلوم دیوبند کی عظیم الشان خدمت حدیث ہندوستان کی علمی و تحقیقی تاریخ کا نہایت روشن باب ہے ، حدیث کا کوئی میدان علمائے دیوبند کی کاوشوں سے خالی نہیں لیکن درسِ حدیث خصوصی طور پر ان کے فکر و تدبر اور غور و تحقیق کی جولان گاہ رہا ہے ، اکابرینِ دیوبند کی خدمات کا باب اتنا وسیع ہے کہ انہیں بیان کرنے کے لیے پورا دفتر درکار ہے ، پھر بھی احاطہ ممکن نہیں ، اس لیے ان خدمات پر مختصراً ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 

     حضرت نانوتوی کی خدمات کے باب کے ہر میدان میں انتہائی وسیع ہونے کے ساتھ آپ کی خدمتِ حدیث کے بھی متنوع پہلو اور گوشے ہیں لیکن یہ مختصر سا مضمون ان تمام پہلوؤں کے احاطے کا متحمل نہیں ہو سکتا ، اس لیے چند ایک کو ذکر کرنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے ، 
آپ کی خدمات حدیث میں ایک منفرد علمی کارنامہ حاشیہ بخاری کی تکمیل ہے اور باعثِ تعجب یہ ہے کہ اتنا عظیم اور لائقِ صد آفریں کارنامہ حضرت نے 18 سال کی عمر میں انجام دیا۔
     
  حضرت مولانا گنگوہی ایک ایسے محدث تھے جن میں اجتہاد و استنباط کی تمام صلاحیتیں موجود تھیں آپ کے درسِ حدیث میں ایک خاص خوبی تھی کہ حدیث کا مضمون سن کر اس پر عمل کرنے کا شوق پیدا ہوتا تھا یہ خاص اثر اس لیے تھا کہ آپ صحیح معنوں میں محِبِّ رسول اور سنت کے شیدائی تھے ، آپ کی تقریر کے بعد شروح و حواشی دیکھنے کی مطلق ضرورت نہ رہتی تھی اور یوں خیال ہوتا تھا کہ تمام شرحوں اور تفصیلات کا خلاصہ حضرت نے سامنے کر دیا۔
دو درجن سے زائد کتابیں ورسائل آپ کی علمی یادگار ہیں ہزاروں علماء و مشائخ آپ کے فیضِ علمی و روحانی سے مستفید ہوئے ہیں

    بطل حریت حضرت شیخ الہند کی شخصیت انتہائی ہمہ جہت اور جامع الکمالات تھی ،  آپ منفرد خصوصیات و کمالات کی بناء پر علمائے دیوبند میں امتیازی حیثیت کے مالک ہیں ، آپ کی خدماتِ حدیث سے متعلق خود کچھ کہنے کے بجائے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کا ایک اقتباس نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں " حضرت شیخ الہند نے مسلسل 40 برس تک درس حدیث دیا اور اس دوران 860 اعلیٰ استعداد کے صاحب طرز عالمِ دین فاضلِ دین اور ماہرِ فنون پیدا کیے آپ کا درسِ حدیث اس دور میں امتیازی شان رکھتا تھا اور مرجع علماء تھا آپ کو علمائے عصر نے "محدث عصر" تسلیم کیا " 
آپ کے شاگردوں میں حضرت تھانوی اور علامہ کشمیری سمیت بے شمار نابغہ روزگار شخصیات ہیں۔

حضرت تھانوی کو اللّٰہ تعالی نے دیگر علوم و فنون کے ساتھ علم حدیث میں بھی بلند مقام و مرتبہ نصیب فرمایا تھا ، آپ کی تصانیف گو کہ فقہ و فتاوی ، احکام و مسائل یا اصلاحِ رسوم اور تصوف و سلوک میں ہیں لیکن ان کی بنیاد احادیث پر ہے ان میں احادیث کے حوالے ، دلائل کی مضبوطی اور صحتِ بیان کی تائید و شہادت کے لیے آئے ہیں جو آپ کے علم و معرفت پر دلیلِ قاطع ہیں۔

 حضرت علامہ کشمیری کو قدرت کی جانب سے حافظہ ایسا عدیم النظیر اور بے مثال عطا کیا گیا تھا کہ ایک مرتبہ کی دیکھی ہوئی کتاب کے مضامین و مطالب تو درکنار عبارتیں تک مع صفحات و سطور کے یاد رہتیں اور دورانِ تقریر بے تکلف حوالے پر حوالے دیتے چلے جاتے تھے ، صحاحِ ستہ اور حدیث کی اکثر کتابیں آپ کے نوک زبان پر تھیں ، اسی بے مثال قوت حافظہ اور سخت مجاہدے کی بنا پر حدیث میں وہ مقام حاصل کیا کہ متقدمین علمائے حدیث کی یاد تازہ کر دی حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی تحریر فرماتے ہیں:
" اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تم نے ابن حجر عسقلانی کو دیکھا ہے یا ابن دقیق العید سے تمہاری ملاقات ہوئی ہے یا تم کو سلطان العلماء عز الدین ابن عبد السلام کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی ہے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ مجھے ان ہستیوں سے ملاقات کا موقع ملا ہے ، زمانے کی گردشوں کا فرق ہے ورنہ حضرت شاہ صاحب مرحوم اگر قدیم صدیوں میں پیدا ہوئے ہوتے تو سیر و سوانح میں ان کا ذکر مذکورہ اشخاص کے پہلو بہ پہلو کیا جاتا۔



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے