Header Ads Widget

قرآن فہمی اور ہماری غفلت شعاری

قرآن فہمی اور ہماری غفلت شعاری 


قرآن فہمی اور ہماری غفلت شعاری



از: عبدالعلیم دیوگھری

قرآنِ کریم تمام بنی نوعِ انسان کے لیے سراپا رحمت و ہدایت اور مشعلِ راہ ہے، اس کا سطر سطر ہدایت آفریں اور لفظ لفظ رشد و راہ بری کا آئینہ دار ہے، علوم و معارف کا گنجینہ اور حکمت و دانائی کا سرچشمہ ہے، اس کی فصاحت و بلاغت اور زورِ بیاں کے آگے ادب و بلاغت پر ناز کرنے والی قوموں کی عقلیں مبہوت و مغلوب ہوکر رہ گئیں اور اس کی تعلیمات اپنی صداقت و حقانیت کے باعث چہار دانگ عالم میں پھیل گئیں، یقینا یہ دنیا کی سچی ترین کتاب ہے شکوک و شبہات کی ادنی سے ادنی آمیزش سے بھی بالکل پاک ہے، یہ انسانوں کی تصنیف کردہ کتابوں کی مانند نہیں جس کے پیش لفظ یا دیباچہ میں صاحبِ کتاب اپنے قارئین سے عرض پرداز ہوتا ہے کہ ”ازروئے بشریت کتاب کے لکھنے میں غلطی ہو گئی ہوگی، اگر کوئی صاحب اس پر مطلع ہوں تو آگاہ کرکے ممنون ہوں“، قرآن کا اسلوب دیکھیے وہ اپنی حقانیت و صداقت کے حوالے سے برملا اور ببانگِ دہل اعلان کرتا ہے کہ ”یہ ایسی کتاب ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں“، صداقت و حقانیت کی ایسی جرأت آمیز اعلان کا حق بہ جز کلامِ الہی کے بھلا کسے حاصل ہو سکتا ہے؟
اس لاریب اور شک و شبہ سے بالاتر کتاب کے الفاظ و عبارات، معانی و مفاہیم، اس کی اصلاحی ہدایات، قلب کو صیقل اور عقل کو جلا بخشنے والے اصول اور اخلاق و کردار کو سنوارنے والی تعلیمات کا نیک نیتی اور اپنے اندر جذب کرنے کے ارادے سے مطالعہ کرنا نہ صرف نزولِ قرآنی کا بنیادی مقصد ہے؛ بلکہ ہر انسان کا اہم فریضہ ہے، نیز یہ عمل نہایت سعادت و خوش بختی کا ضامن ہے۔

محض قرآن کریم کی تلاوت پر اکتفا کرنا اور اس کی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش نہ کرنا، قرآن کریم کی حق تلفی ہے، آخر اس کی تعلیمات کو معلوم کیے بغیر اور خدا کے پیغام کو جانے بغیر ہم کیسے اس کے سایے میں اپنی زندگی گزار سکتے ہیں؟
اس بات سے انکار نہیں کہ قرآن کی تلاوت بجائے خود بےشمار اجر و ثواب کا حامل ہے؛ تاہم اسے سمجھ کر پڑھنا قرآن کے نزول کا اصلی مقصد ہے اور یہی اس کی تلاوت کا حق بھی ہے، قرآن کریم کے اس ارشاد پر غور کیجیے:
اَلَّذِینَ آَتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَتْلُونَہُ حَقَّ تِلَاوَتِہِ أُولَئِکَ یُؤْمِنُونَ بِہِ (سورۃ البقرہ)
ترجمہ: وہ لوگ جنھیں ہم نے کتاب عطا کی، وہ اس کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے، یہی لوگ (فی الحقیقت) اس پر ایمان رکھتے ہیں۔

قرآن کی تلاوت کا حق یہی ہے کہ اسے سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے، مگر بدقسمتی سے برصغیر میں مسلمانوں کا عمومی مزاج یہ بن چکا ہے کہ وہ محض ناظرہ خوانی اور حفظ کو ہی قرآن کا اصلی حق سمجھتے ہیں اور اس کے مطالب و مراد کو سمجھنے کو قابلِ اعتنا نہیں گردانتے ہیں، ان کے اذہان میں یہ عجیب تصور راسخ ہو گیا ہے کہ قرآن فہمی علما کا کام ہے اور عوام اس فریضے کے بار سے سبک دوش ہیں، حالاں کہ قرآن کا سمجھنا ہر مسلمان پر بغیر کسی تفریق و امتیاز کے واجب ہے، ذرا قرآن کے اس ارشاد پر نظر ڈالی جائے:
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ. (سورۃ ص)
ترجمہ: یہ کتاب جو بابرکت ہے ہم نے آپ کی طرف نازل کی؛ تاکہ لوگ اس کی آیات میں غور و فکر کریں اور عقل مند نصیحت حاصل کریں۔
اس آیتِ مبارکہ میں بغیر کسی امتیاز و استثنا کے نزول قرآنی کا یہ مقصد بیان کیا گیا ہے کہ لوگ اس میں غور و فکر کریں اور صاحبِ عقل اس سے نصیحت و عبرت حاصل کریں، اس خطاب میں عوام و خواص دونوں شامل ہیں۔
قرآنِ کریم کوئی فلسفے کی کتاب نہیں ہے کہ اس کو سمجھنے کے لیے بہت زیادہ ذہن سوزی اور مغزپاشی کی ضرورت پڑے؛ بلکہ یہ تو کتابِ ہدایت ہے کہ ہر خاص و عام کے لیے اس کے مشمولات کا سمجھنا آسان ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھ کر اس کے اسلوب کو نہایت سادہ، عام فہم، پرکشش اور فصاحت و بلاغت سے لبریز رکھا ہے؛ تاکہ جو بھی اس کوپڑھے اس کے دل میں اس کی تعلیمات اترتی چلی جائیں اور ان کی روشن تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے لگ جائے۔

حاصل یہ ہے کہ قرآن کا سمجھنا نہایت آسان ہے اور ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے، قرآن کا حق ہے کہ اپنی بساط بھر اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے؛ چناں چہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ. (سورۃ القمر)
ترجمہ: اور ہم نے قرآن کو آسان کر دیا ہے نصیحت حاصل کرنے کے لیے تو ہے کوئی نصحیت حاصل کرنے والا؟۔

ہم نے قرآن کے الفاظ پر توجہ دی تو ہمارے سامنے اس کا آسان ہونا ظاہر ہو گیا کہ چھوٹے چھوٹے طفلِ نوخیز بھی نہ صرف ناظرہ خوانی؛ بلکہ بڑی آسانی سے اس کو اپنے سینوں میں محفوظ کر لیتے ہیں۔
 ہم نے اس کے معانی کے حوالے سے سرد مہری کا مظاہرہ کیا اور کبھی سمجھنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی اس لیے ہمارے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اس کا سمجھنا پر از مشقت کام ہے، حالاں کہ اگر ہم اس کو سمجھنے کا عملی اقدام شروع کردیں تو یہ بات صاف طور پر واضح ہو جائےگی کہ یہ تو نہایت آسان کام ہے۔
علمائے کرام نے اپنی محنت، جاں فشانی اور عرق ریزی سے قرآنی تفاسیر و تراجم کے بہت سے ذخیرے تیار کر دیے ہیں جن کے مطالعہ سے قرآن کے مضامین کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے، نہ صرف عربی زبان؛ بلکہ دنیا کی تقریبا تمام قابلِ شمار زبانوں میں یہ متبرک کام انجام پا چکا ہے، خصوصا اردو زبان کا دامن اس حوالے سے نہایت وسیع ثابت ہوا ہے، برصغیر کے علما نے اردو زبان میں اتنے تفاسیر و تراجم لکھے ہیں کہ عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں قرآن کی اس قدر خدمت انجام نہیں دی گئی ہے۔
اس قدر ذرائع و وسائل اور سہولیات کے بعد اب کسی مسلمان کے پاس کوئی عذر نہیں باقی رہ جاتا ہے، یہ ہرگز نہیں کہا جائےگا کہ قرآن کے مضامین ہماری فہم سے بالاتر ہیں، جب دنیاوی علوم کے حصول کی خاطر دقیق سے دقیق مباحث کو سمجھ لینے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں ہوتا ہے تو اللہ کے آسان کلام کو سمجھنے کے حوالے سے نافہمی کا عذر کیسے قابلِ اعتنا سمجھا جا سکتا ہے؟
اب اگر کوئی اس حوالے سے غفلت شعاری اور بےالتفانی سے کام لے تو اس کا وبال یقینا اسی پر ہوگا؛ لہذا عزم کیجیے کہ ہم قرآن کے پیغام کو سمجھنے کی ضرور کوشش کریں گے اور اس پر عمل بھی کریں گے، ذیل میں چند ایک مستند تفاسیر کا نام لکھ دیا جاتا ہے؛ تاکہ شائقین مطالعہ کے لیے سہولت ہو۔

(۱)ترجمۂ شیخ الہند از محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ مع فوائد عثمانی
(۲) معارف القرآن از مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی رحمہ اللہ
(۳) توضیح القرآن از مفتی محمد تقی عثمانی صاحب (عام فہم اور دور حاضر کی زبان و تعبیر میں)
(۴) بیان القرآن از حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (اس کا اسلوب تھوڑا مشکل قسم کا ہے، اگر سمجھنے کی استطاعت ہو تو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے)
(۵) آسان تفسیر از مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (یہ تفسیر بھی عام فہم اور لائقِ مطالعہ ہے)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے