Header Ads Widget

مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ: کچھ باتیں ان کے یومِ وفات کے موقع پر

 مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ: کچھ باتیں ان کے یومِ وفات کے موقع پر 

مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ: کچھ باتیں ان کے یومِ وفات کے موقع پر



از: عبید انور شاہ

اس میں دو رائے نہیں ہو سکتی کہ مولانا مودودی انقلابی ذہن و فکر اور پُر اثر شخصیت کے مالک تھے. وہ بلا کے ذہین تھے اور قلم پر ان کی گرفت بڑی مضبوط تھی. ان کی جو چیز سب سے زیادہ متاثر کن تھی اور جس کا اعتراف مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ نے بھی کیا؛ وہ ان کے قلم کی توانا آواز اور بلند و بانگ لب و لہجہ تھا، جس میں مرعوبیت و مغلوبیت کا شمہ برابر اثر نہ تھا اور یہ خوبی انہیں ان کے بہت سے ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہے. یوں تو ان کے کارناموں کی فہرست طویل ہے لیکن ان میں سرِ فہرست فتنۂ قادیانیت، فتنۂ انکارِ حدیث، اور اسلامی تعلیمات سے ٹکرانے والے مختلف اِزموں کے خلاف عظیم قلمی جہاد ہے. اسلام کے خلاف اٹھنے والے مختلف الجہات اعتراضات و شبہات کا انہوں نے بڑا مسکت اور منہ توڑ جواب دیا ہے. (یہ افسوسناک امر ہے کہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی نے انکارِ حدیث کے فتنے پر باقاعدہ تحریریں لکھیں اور آج وہی جماعت منکرینِ حدیث کے مخصوص گروہ کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے). مولانا مودودی اور ان کی قائم کردہ جماعت کا جب بھی نام آتا ہے تو اس کے ساتھ حسن البنا شہید اور کی قائم کردہ جماعت اخوان المسلمون کا نام بھی ضرور لیا جاتا ہے. اس حوالے سے اہل علم و اہل قلم نے بہت کچھ لکھا ہے. دونوں کے افکار و خدمات کا موازنہ بھی کیا گیا ہے. اس پہلو پر مطالعہ کرتے وقت عموماً قاری ایک مشہور غلطی کا شکار ہو جاتا ہے کہ حسن البنا شہید مولانا مودودی سے متاثر تھے اور انہوں نے اخوان کی بنیاد جماعت اسلامی سے متاثر ہو کر رکھی. تاریخی لحاظ سے یہ بات درست نہیں. حسن البنا شہید اور مولانا مودودی دونوں نے اسلام کی خدمت کے لیے مدافعت کے بجائے مزاحمت و مقابلے کی جو راہ اختیار کی، اس میں حسن البنا شہید ہر لحاظ سے سابق ہیں. حسن البنا شہید نے زمانہ طالب علمی ہی میں اپنے عزائم کا اظہار ان لفظوں میں کیا تھا کہ "میری زندگی کی سب سے بڑی سعادت یہ ہوگی کہ میں لوگوں کا ہادی اور معلم بنوں". پھر انہوں نے فراغت کے فوراً بعد 1928ء میں اسماعیلیہ کے مقام پر اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی. جبکہ جماعت اسلامی کا قیام اس کے کافی سالوں بعد 26 اگست 1941ء میں ہوا۔

مولانا مودودی کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ ان سے کئی مواقع پر سخت قلمی و فکری غلطیاں ہوئی ہیں. یہ غلطیاں بڑی سنگین ہیں اور ان کا دائرہ عصمتِ انبیاء، عظمت و عدالتِ صحابہ جیسے بنیادی مسائل اور تفسیر بالرائے جیسے نازک گوشہ سے جڑا ہوا ہے. فقہ و حدیث کے حوالے سے بھی ان کے قلم سے ایسے غلط جملے اور ایسی نامناسب باتیں نکلی ہیں جنہیں پڑھ کر ایک عام قاری مسلمانوں کے اس علمی تراث و قابل قدر ذخیرہ کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتا ہے. ہم مولانا کی نیت پر حملہ نہیں کرتے. دلوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے. ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ اس کی وجہ تھی انہوں نے باقاعدہ مستند و ماہر علماء سے معروف طریقہ پر علم حاصل کرنے کی جگہ ذاتی مطالعہ پر توجہ دی اور اپنے فہم کو فہم دین قرار دیا. مولانا کے ساتھ ایک بڑی ٹریجڈی یہ ہوئی کہ ان کے چاہنے والوں نے ان کی سنگین سے سنگین غلطی کے دفاع کو اسلام کا دفاع سمجھ لیا اور ان کے ایک ایک لفظ، ایک ایک جملے کو درست ثابت کرنے کے لیے قلم کو حرکت دینا جہادِ اعظم تصور کر لیا. مولانا ایک انسان تھے اور ان سے کسی بھی غلطی کا صدور ممکن تھا لیکن ان کے مداحوں نے نہ صرف اس حقیقت کو جھٹلایا بلکہ جماعت کے اساسی دستور "رسولِ خدا کے سوا کسی اِنسان کو معیارِ حق نہ بنائے، کسی کو تنقید سے بالاتر نہ سمجھے، کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو"، کی مخالفت کرتے ہوئے مولانا ہی کو معیار حق سمجھ لیا، ان پر تنقید کو حرام قرار دیا اور ان کی ذہنی غلامی کو اپنا شعار بنا لیا۔

اگر اس سلسلے میں وہ یہ گنجائش پیدا کر لیتے کہ مولانا سے جو غلطیاں ہوئیں وہ ان کا تفرد ہیں، نہ کہ عین اسلامی فکر تو معاملہ بڑی حد تک حل ہو جاتا. تفردات امت میں ہمیشہ سے رہے ہیں، ان کی نوعیت و حقیقت بھی الگ الگ ہے، لیکن مشترک بات یہ ہے کہ تفرد مان لینے سے ضد کی جگہ عذر کا پہلو نکل آتا ہے. ان کے بہت سے نادان دوستوں نے عذر کی جگہ ضد کو اپنایا اور ان چیزوں کے دفاع کے بھی درپے رہے جن میں بعید سے بعید تاویل کے بعد بھی بات بنتی نظر نہیں آتی. دوسری ٹریجڈی ان کے ساتھ یہ ہوئی کہ ان کے محبین نے (جن میں اکثریت ایسے اصحابِ قلم و فکر کی ہے جو باقاعدہ عالم دین ہیں، نہ علم کے حقیقی معنی و مفہوم سے آشنا ہیں) مولانا کو صدی کا مجدد اعظم، مجتہد مطلق اور نہ جانے جانے کیا کیا قرار دینے کی سعیٔ نا مشکور کی. مولانا مودودی مجدد و مجتہد تو کجا، فقیہ و محدث بھی نہ تھے، وہ ایک مصلح، بلند پایہ مفکر، تجزیہ نگار، مصنف و مؤلف تھے. ان کے حوالے سے کی گئی مبالغہ آمیز بلکہ جھوٹی تعریفوں اور باتوں کی وجہ سے بھی ان کی مخالفت میں اضافہ ہوا۔

مولانا کے بارے میں کسی بڑے شخص کی رائے نظر سے گزری تھی کہ "وہ بڑی ذہانت اور ذاتی خوبیوں کے حامل انسان تھے، ان کی تربیت کوئی عام عالم ہرگز نہ کر سکتا تھا، اگر انہیں بھی علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی طرح حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جیسا پیر میسر ہو جاتا تو ان کا معاملہ ہی کچھ اور ہوتا" (مفہوم) ..... مولانا مودودی کے حوالے سے اس سے سچی، مبنی بر حقیقت بات کوئی اور نہیں ہو سکتی!! 

 اللہ ان کی لغزشوں، کوتاہیوں کو معاف فرمائے، ان کی فکری غلطیوں سے امت کی حفاظت فرمائے. ان کی مغفرت فرمائے اور دفاعِ اسلام کے لیے کی گئی ان کی کوششوں کے بدلے ان کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین!

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے