Header Ads Widget

لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم بارہ ربیع الاول کیوں نہ منائیں؟

 لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم بارہ ربیع الاول کیوں نہ منائیں؟


لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم بارہ ربیع الاول کیوں نہ منائیں؟


از: محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی

    تو جواباً عرض ہے کہ اس لیے کہ نہ ہی اس کو صاحب شریعت علی صاحبہا ٰصلوۃ و سلام نے کیا ہے، اور نہ ہی آپ کے جاں نثار و وفا شعار اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیا ہے، نہ تابعین نے کیا ہے اور نہ ہی ائمۂ مجتہدین نے کیا ہے، اور جان لیں! کہ دین وہی ہے جو من جانب اللہ بواسطۂ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی عملی زندگی سے ہوتے ہوے بلا کم و کاست ہم تک پہنچی ہو، یہ دین ہے اور یہی دین ہے اور یہی واجب الاطاعت شریعت ہے، اور اسی کا اتباع مطلوب و مقصود ہے۔

اور یہی لائقِ تحسین و محمود ہے،  اس کے علاوہ جو بھی ہے وہ محض سراب ہے، وہ اباطیل کے قبیل سے ہے، اور اس کی حیثیت تارِ عنکبوت سے ہرگز زیادہ نہیں ہے، آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل ہی مکہ کی وادیوں میں وحیِ الہیٰ نے بہ زبانِ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلّم الیوم اکملت لکم دینکم کا اعلان کر دیا تھا، اور بتا دیا تھا، اب شریعت کامل و مکمل ہو چکی ہے، لہذا اب نہ کمی کا شائبہ ہے اور نہ ہی زیادتی کی گنجائش ہے، اب اگر کوئی اضافے کے درپے ہے تو وہ محض شیطان ہے جو اپنی شیطنت کے لیے شریعت پر ظلم کرنا چاہتا ہے،  دینِ محمدی کے انہدام کا خواہاں ہے، اور  اپنی وضع کردہ بدعات کے ذریعے شریعت کی صاف و شفاف تصویر کو گدلا اور آلودہ کرنا چاہتا ہے۔

جہاں تک بات ہے نفس ولادت پر اظہارِ خوشی کے تو یقیناً یہ ایک محبوب و مقبول عمل ہے، کون بد بخت ہے جو اس کو منع کرے، اور اس پر ثواب مرتب ہونے پر قدغن لگائے، لیکن معاملہ صرف اسی حد تو نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے تو اب اس امرِ مندوب پر بھی باعثِ خرافات کے منع کیا جائےگا، کیوں کہ لوگ اب اس کو شریعت مطہرہ کا ایک جزءِ لا ینفک شمار کرنے لگے ہیں۔

آپ دنیا کے دیگر رسم و رواج کی طرح دسیوں تیوہار وضع کرلیں اور آپ میلے جلوس ہفتوں ہفتوں میں نکالا کریں، اور خوشیاں آپ روز منایا کریں، اس سے کوئی تکلیف نہیں،  نہ ہی ہم آپ کے مزاحم بنیں گے اور نا ہم آپ کے راستے میں آئیں گے، لیکن یاد رکھیں آپ جب کوئی بھی بات دین کی نسبت سے بیان کریں گے، اور اس کا سلسلۂ استناد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے جوڑیں گے، اور اس عمل و فعل کے متعلق آپ ایک دینی و شرعی تصور دینا چاہیں گے۔  تو یاد رکھیں ہمارا یہ دینی و شرعی فریضہ ہے کہ ہم اس کو پرکھیں، اس عمل کی دینی حیثیت واضح کریں، اور پورے ماحول و معاشرے کا‌جائزہ لینے کے بعد اس کا شرعی حکم بیان کریں  تو یقیناً ہم یہ فریضہ انجام دیں گے اور اپنی زندگی کے آخری مرحلے تک ان شاء اللہ ہم اس  کو انجام دیں گے اور اپنے پاک دین کی پہریداری کریں گے، اور جو کوئی شریعت محمدیہ علی صاحبہا صلوۃ و تحیہ میں خرد برد اور ڈاکہ زنی کی کوشش کریگا ان‌ شاء اللہ ہم اس کا بھر پور تعاقب کریں، ہر مرحلے اور ہر لمحے میں کریں گے، تا آں کہ کیفرِ کردار تک پہنچ چائے، اور بدعت و اہلِ بدعت اپنے عبرت ناک انجام دیکھ لیں۔


                   اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم بلا دلیل بارہ ربیع الاول منائیں گے تو میں جواباً کہوں گا کہ یہ شریعت تمہارے باپ دادا کا خود ساختہ و پرداختہ نہیں، یہ دین اس بدعت گڈھ کا خانہ زاد نہیں ہے، جہاں سے بدعات و خرافات کو فروغ ملتا ہے، اور جہاں کے منسلکین بدعت کی اشاعت و ترویج میں اپنے ساری قوت و توانائی صرف کرتے ہیں، گویا کہ ان‌‌ کی زندگی کا مقصد و مطلب ہی مروجہ رسوم و رواج اور بدعات و خرافات کو قرآن و سنت سے زبردستی کھینچا تانی کر کے دلائل سے مدلل و مبرہن کرنا ہے،  یہ شریعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت ہے، اس میں ہماری اور تمہاری مرضی نہیں چلےگی، شریعت محض منشاے خداوندی اور مرادِ محمدی کا نام ہے، اسی پے عمل پیرا ہونا انسانیت کی فلاح کا ضامن ہے، اور اسی پر  رضائے رب موقوف ہے، اور اپنے مطلب کی گڑھ کر اور دین کا نام دے کر جو عمل کیا جایگا درحقیقت پسِ پردہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر یہ الزام عائد کر رہا ہے کہ آپ نے نعوذباللہ حاشا و کلا کامل شریعت ہم تک نہیں پہنچائی، اور در حقیقت وہ قولِ خداوندی کی تکذیب کر رہا ہے۔

                                اور چوں کہ بارہ ربیع الاول کی مروجہ صورت جس میں بدعات و خرافات کا شدید غلبہ ہے لہذا اس کا ترک واجب ہے۔  


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے