سورہ تحریم کا پس منظر اور شان نزول
سورہ تحریم ترتیب کے لحاظ سے قرآن کریم کی چھیاسٹھویں سورت ہے، یہ سورہ مبارکہ مدنی ہے اور اس میں کل بارہ آیتیں ہیں، اس سورہ مبارکہ کے شانِ نزول کے حوالے سے مفسرین کی آرا مختلف ہیں؛ تاہم ان مختلف اقوال میں قدر مشترک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امہات المومنین کی رضامندی کی خاطر اپنے اوپر کسی حلال شیئ کو حرام کر لیا تھا، جیسا کہ اس سورہ کے نام سے معلوم ہوتا ہے؛ چناں چہ سورہ مبارکہ کی پہلی آیت ہے:
يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ.
ترجمہ: اے نبی آپ اپنے اوپر ان چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جسے اللہ تعالی نے آپ کے لیے حلال قرار دیا ہے۔
سورہ تحریم کا شان نزول
سورہ مبارکہ کے شان نزول کے حوالے سے مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اپنی تفسیر بیان القرآن میں بخاری شریف کے حوالے سے یہ واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ عصر کی نماز کے بعد ازواجِ مطہرات کے ہاں خبرگیری کی غرض سے تشریف لے جایا کرتے تھے؛ چناں چہ ایک روز اپنے معمول کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم خبرگیری کے واسطے نکلے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے یہاں معمول سے زیادہ ٹھہرے، جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں نے وجہ جاننے کی کوشش کی، پتہ چلا کہ آپ نے حضرت زینب کے پاس شہد نوش فرمایا ہے، (شہد اور شیریں چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرغوب غذا تھی) مجھے اس بات پر رشک آ گیا اور میں دل ہی دل میں کہنے لگی کہ ضرور کوئی تدبیر کروں گی۔
چناں چہ میں نے حضرت حفصہ بنت عمر (رضی اللہ عنہا)سے مشورہ کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جن کے پاس بھی تشریف لائیں وہ یوں کہیں کہ آپ نے مغافیر نوش فرمایا ہے۔ (مغافیر ایک گوند ہے جس کی بو سے کراہت آتی ہے)
چناں چہ ایسا ہی ہوا، آپ جس ازواج کے پاس بھی جاتے وہ یہی کہتیں کہ آپ کے منھ سے مغافیر کی بو آ رہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں نے تو شہد نوش کیا ہے، تو جواب میں انھوں نے کہا کہ ممکن ہے شہد کی مکھی اس درخت پر بیٹھ گئی ہو اور اس کا عرق چوس لیا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی خوشبو پسند تھی؛ چناں چہ آپ نے قسم کھاکر کہا کہ میں آئندہ اب سے شہد نہیں پیوں گا اور اس خیال سے کہ حضرت زینب کا دل رنجیدہ نہ ہو جائے آپ نے فرمایا کہ اس بات کو کسی پر ظاہر مت کرنا مگر انھوں نے اس بات کو پردۂ خفا میں رہنے نہ دیا۔
چناں چہ اسی کے متعلق اس سورہ مبارکہ کی شروع کی آیتیں نازل ہوئیں جس میں آپ سے خطاب ہے کہ آپ حلال چیز کو اپنی بیویوں کی رضامندی کی خاطر حرام کیوں کرتے ہیں؟۔
نیز ازواج مطہرات کو خاص طور پر رجوع و انابت الی اللہ کا تاکیدی حکم دیا۔
بعض روایات میں ہے کہ حضرت حفصہ شہد پلانے والی ہیں اور حضرت عائشہ، سودا اور صفیہ (رضی اللہ عنھن) صلاح کرنے والی ہیں، نیز کچھ روایتوں میں دوسرے قصے بھی مروی ہیں، مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ کئی واقعے ہوں اور سب کے بعد یہ آیتیں نازل ہوئی ہوں۔
شان نزول کے متعلق دوسری روایت
ایک دوسرا واقعہ عبیداللہ بن عبداللہ رحمہ اللہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کے دن ام ابراہیم حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے پاس پایا، تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں یہ بات عائشہ (رضی اللہ عنہا) کو ضرور بتاؤں گی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ”اگر میں ان سے قربت کروں تو یہ مجھ پر حرام ہے“۔ لیکن حضرت حفصہ نے حضرت عائشہ کو اس کے متعلق باخبر کر دیا۔ ادھر اللہ تعالی نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو باخبر کر دیا۔
پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ کو ان کی باتیں بتائیں تو وہ کہنے لگیں کہ آپ کو کس نے بتایا؟ آپ نے فرمایا مجھے اس ذات نے بتایا جو علیم و خبیر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک اپنے ازواج کے پاس نہ جانے کی قسم کھالی (ایلا کر لیا) جس پر یہ آیتیں اتریں، شروع کی پانچ آیتیں ان ہی مضامین پر مشتمل ہیں۔
مصادر و مراجع: بیان القرآن| آیات قرآنی کے شان نزول ترجمہ اردو اسباب النزول
0 تبصرے
تبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!