Header Ads Widget

سورہ بقرہ کی فضیلت احادیث کی روشنی میں

سورہ بقرہ کی فضیلت احادیث کی روشنی میں


سورہ بقرہ کی فضیلت احادیث کی روشنی میں



سورہ بقرہ قرآنِ کریم کی طویل ترین سورت ہے، جو تقریبا ۴۰ رکوعات، ۲۸۶ آیات، ۶۱۲۱ کلمات اور ۲۵۵۰۰ حروف پر مشتمل ہے۔
بقرہ کے معنی گائے کے آتے ہیں؛ چوں کہ اس سورہ مبارکہ کی آیت ۶۷ سے ۷۳ کے درمیان بنی اسرائیل کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے جس میں گائے کا تذکرہ موجود ہے؛ چناں چہ اس مناسبت سے اس سورہ مبارکہ کا نام بھی بقرہ رکھ دیا گیا۔
یہ سورہ کئی مضامین پر مشتمل ہے جس کا تذکرہ تطویل کے خوف سے متروک رکھا جاتا ہے، سرِ دست ہم اس مبارک سورہ کی فضیلت و اہمیت اور فوائد و برکات کو احادیث مبارکہ کی روشنی میں جاننے کی کوشش کریں گے۔

سورہ بقرہ کی فضیلت

شیطان کے وسوسوں اور گمراہیوں سے نجات

یہ بات ہر مسلمان اچھی طرح جانتا ہے کہ شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے اور اس کی ساری مساعی اور کوششیں حضرتِ انسان کو راہِ راست سے گمراہ کرنے میں صرف ہوتی ہیں، وہ ہمہ دم مختلف حیلوں اور تدابیر کو بروئے کار لاکر انسانی قلوب میں طرح طرح کے وسائس اور گمراہ کن خیالات پیدا کرکے اس کی تضلیل کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ اور شیطان کی شرانگیز تدابیر اور وسائس سے گلو خلاصی بہ جز توفیقِ الہی اور اعانتِ خداوندی کے حاصل نہیں ہو سکتی ہے، سورہ بقرہ کی تلاوت سے حق تعالی کی وہی توفیق حاصل ہوتی ہے اور بندہ شیطان کی شرارتوں سے مامون و محفوظ ہو جاتا ہے؛ چناں چہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقابِرَ، إنَّ الشَّيْطانَ يَنْفِرُ مِنَ البَيْتِ الذي تُقْرَأُ فيه سُورَةُ البَقَرَةِ. (صحیح مسلم)
ترجمہ: تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، بےشک شیطان اس گھر سے راہِ فرار اختیار کر لیتا ہے جہاں سورہ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے۔


گھر میں تلاوت و عبادت اور اوراد و اذکار کا عدمِ اہتمام اسے قبرستان بنا دینے کے مرادف ہے، کہ جس طرح قبرستان میں ویرانیوں اور خموشیوں کا سماں ہوتا ہے اس طرح جو گھر کلامِ الہی اور ذکرِ الہی کے زمزموں سے خالی ہوگا وہ بھی گویا قبرستان ہی ہے، اور ویران مقامات پر شیطان اپنا تسلط بہ آسانی قائم کر لیتا ہے؛ اسی وجہ سے فرمایا کہ سورہ بقرہ کی تلاوت سے گھروں کو آباد رکھو کہ شیطان کو اس مبارک سورہ کے سننے کی تاب نہیں، وہ فی الفور اس گھر سے راہِ فرار اختیار کر لےگا جہاں یہ مبارک سورہ پڑھی جائےگی۔

حصول برکت، حصول شفاعت اور ابطالِ سحر

سورہ بقرہ کی فضیلت کے حوالے سے یہ حدیث ملاحظہ فرمائیے، حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
 اقْرَئُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ اقْرَئُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ کَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ أَوْ کَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا اقْرَئُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَکَةٌ وَتَرْکَهَا حَسْرَةٌ وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ قَالَ مُعَاوِيَةُ بَلَغَنِي أَنَّ الْبَطَلَةَ السَّحَرَةُ. (صحیح مسلم)
 ترجمہ: تم لوگ قرآن پڑھا کرو؛ کیوں قیامت کے دن یہ اپنے پڑھنے والے کے حق میں سفارشی بن کر آئےگا، تم لوگ دو روشن سورتوں یعنی سورہ بقرہ اور سورہ آلِ عمران کو پڑھا کرو؛ کیوں کہ وہ قیامت کے دن اس طور پر آئیں گی گویا کہ وہ بادل ہوں یا دو سائبان ہوں یا دو اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں، وہ دونوں اپنے پڑھنے والے کے حق میں جھگڑا کریں گی، تم لوگ سورہ بقرہ پڑھا کرو؛ کیوں کہ اس کا پڑھنا برکت کا سبب ہے اور اس کا ترک کر دینا محرومی کا باعث ہے، اور جادوں گر اس کو نہیں حاصل کر سکتے ہیں۔
 حدیث پاک اپنے مفہوم میں ظاہر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی تلاوت کا حکم فرمایا، اور سورہ بقرہ اور آلِ عمران کا نام لیکر آپ نے انھیں پڑھنے کا حکم دیا، اور ان کی فضیلت یہ بیان کی کہ بروز قیامت یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والے کے حق میں شفاعت کریں گی، نیز فرمایا کہ سورہ بقرہ کی تلاوت برکت کا باعث ہے اور اس کو نہ پڑھنا محرومی کا موجب ہے، دنیا میں حصول برکت سے محرومی ہوگی اور آخرت میں نیکیوں کے فقدان کا خسارہ ہوگا، نیز جو شخص سورہ بقرہ پڑھتا ہے اس پر جادوگروں کا زور نہیں چل سکتا ہے، یعنی ایسا شخص سحر وغیرہ جیسی شیطانی کاموں کے اثر سے محفوظ رہتا ہے۔

سورہ بقرہ امتِ محمدیہ کی خصوصیت

 عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بَيْنَمَا جِبْرِيلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ نَقِيضًا مِنْ فَوْقِهِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ هَذَا بَابٌ مِنْ السَّمَائِ فُتِحَ الْيَوْمَ لَمْ يُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ فَنَزَلَ مِنْهُ مَلَکٌ فَقَالَ هَذَا مَلَکٌ نَزَلَ إِلَی الْأَرْضِ لَمْ يَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ فَسَلَّمَ وَقَالَ أَبْشِرْ بِنُورَيْنِ أُوتِيتَهُمَا لَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِيٌّ قَبْلَکَ فَاتِحَةُ الْکِتَابِ وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِنْهُمَا إِلَّا أُعْطِيتَهُ. (صحیح مسلم)

ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، کہ اچانک آسمان سے ایک آواز سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا تو حضرت جبریل نے کہا کہ یہ آسمان کا ایسا دروازہ ہے جسے صرف آج کے دن کھولا گیا ہے، پھر اس سے ایک فرشتہ اترا تو حضرت جبریل نے کہا کہ یہ فرشتہ زمین میں اس سے پہلے کبھی نہیں اترا ہے، اس فرشتے نے سلام کیا اور کہا آپ کو خوش خبری ہو ان دو نوروں کی جو آپ کو عطا کیے گئے ہیں اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں عطا کیے گئے ہیں، سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی آخری آیتیں، آپ ان میں سے جو حرف بھی پڑھیں گے آپ کو اس کے عوض عطا کیا جائےگا۔
آسمان سے آواز آنا، اس کا دروازہ کھلنا اور اس سے فرشتے کا نازل ہونا یہ ایک عظیم اور اہم امر کو بیان کرنے کی تمہید ہیں، وہ عظیم امر وہی ہے جسے فرشتے نے خوش خبری کے طور پر  سنایا اور سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی آخری آیتیں ”آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ“ سے لے کر آخر تک کے متعلق کہا کہ یہ نور ہیں، نور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی تلاوت کا اہتمام کرنے والا ان کے نور کے سبب دنیا میں راہ مستقیم پر گامزن رہتا ہے اور یہی نور آخرت میں اس کے ساتھ ہوگا۔
پھر آگے یہ بھی کہا کہ ان کا جو حرف بھی پڑھا جائے اس کے عوض اللہ تعالی اجر و ثواب عطا فرماتے ہیں۔

مصیبتوں سے حفاظت

حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ قَرَأَ بِالْآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي لَيْلَةٍ کَفَتَاهُ. (صحیح البخاری)
ترجمہ: جو شخص سورہ بقرہ کی آخری آیتیں رات کے وقت پڑھ لےگا، وہ اسے ہر مصیبت سے بچانے کے لیے کافی ہو جائیں گی۔

حدیث شریف میں مذکور لفظ ”کفتاہ“ کی شرح میں بعض محدثین نے یہ کہا ہے کہ یہاں کافی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دو آیتیں بندے کے حق میں نماز تہجد کی طرف سے کافی ہو جائیں گی، بعض نے یہ کہا کہ رات میں کیے جانے والے ذکر و اذکار اور دعاؤں کی طرف سے کافی ہو جائیں گی اور کچھ محدثین یہ کہتے ہیں وہ دو آیتیں مصیبتوں اور شیطان کی شر انگیزیوں سے حفاظت کے حوالے سے کافی ہو جائیں گی۔
کچھ علما کہتے ہیں کہ یہاں سارے معانی مراد ہیں یعنی سورہ بقرہ تہجد اور رات کے ادعیہ و اذکار کی طرف سے کافی ہونے کے ساتھ ساتھ مصائب و آلام اور شیطانی شرارتوں سے محفوظ رکھنے کا باعث ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے