Header Ads Widget

افسانہ: حقیقی زندگی

 افسانہ: حقیقی زندگی

از قلم: شبیر احمد ڈار


افسانہ: حقیقی زندگی


 قصبہ برہان میں ایک گھرانہ ایسا بھی تھا جن کا مکان پختہ تو نہیں مگر ان کے حوصلے پختہ چہروں پر ہمیشہ بشاشت رہتی تھی ، جو اپنے عمل سے اپنے قصبہ میں ایک پہچان رکھتے تھے ۔  جہاں صدا موسم بہار کا رہتا تھا یعنی گھر میں ہر وقت خوشیوں کا سماں تھا ۔  کریم بخش پیشے کے لحاظ سے مالی تھا اس کی ساری زندگی درخت لگانے اور پودوں کی دیکھ بھال کرنے میں گزری ۔ وہ  پھولوں کی خوشبو اور درختوں کے سائے تلے سانس لیتا یوں محسوس کرتا جیسے اسے جنت مل گئی ہو ۔ کریم بخش کی بیوی گلشن بیگم  بھی صالح اور فرماں بردار تھی ۔ اپنے گھر میں اتفاق کا پودا پروان چڑھانے میں اس کا اہم کردار تھا ۔  کریم بخش  نے اپنے بچوں کی تربیت میں کوئی کمی نہ رکھی تھی ۔ اللہ پاک نے  کریم بخش کو دو بیٹوں کی صورت میں نعمت  اور ایک بیٹی کی صورت میں رحمت سے نوازا تھا ۔ کریم بخش کا بڑا بیٹا ناصر میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد کاروبار کی جانب راغب ہو گیا تھا ۔ ناصر کے اندر حسد، تکبر اور تعصب نام کی کوئی چیز نہ تھی ۔ دوسروں پر بہت جلد بھروسہ کر لیتا تھا یہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا کے لوگ اب  آپ کے اخلاص کی بجائے آپ کے سادگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مفاد کو ہمیشہ ترجیح دیتے ہیں ۔ ناصر کاروبار میں جو کچھ بھی کماتا اس کا ایک حصہ  اپنے محلے کے غرباء اور مساکین پر خرچ کر دیتا تھا  ۔ کبھی رشتہ داروں سے جھگڑا نہ کیا کرتا تھا نہ ہی بڑوں سے کسی موضوع پر بحث کرتا تھا ۔ قصبہ برہان میں کوئی بھی خوشی کا موقع ہو یا غم کی فضا  باشندگان محلہ  نے ناصر کو ہمیشہ اس میں شریک پایا ۔ ناصر کا چھوٹا بھائی عاشر کو تعلیم سے گہرا لگاؤ تھا ۔ وہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش رکھتا تھا ۔  پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتا اور ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے تھا ۔ عاشر کو ہمیشہ یہ فکر رہتی کہ پیسہ کہاں سے آئے گا ؟ وہ اپنے خواب کیسے  پورے کرے گا ۔ عاشر کی خواہش تھی کہ کوئی ایسا نیک سیرت انسان اسے مل جائے جو اس کے خوابوں کی تعبیر میں اس کی مدد کرے ۔ عاشر نے جب سے ہوش سنبھالا وہ خود ہی محنت مزدوری کر کے اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرتا کیونکہ اس نے اپنے باپ کو ہمیشہ اپنی اولاد کے لیے فکرمند پایا تھا ۔ باپ کی ساری زندگی اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں ہی گزری تھی جو کچھ کمایا وہ گھر پر اور اپنی اولاد پر خرچ کیا تھا ۔ عاشر  عورتوں کی تعلیم کا بڑا خواہاں تھا ۔ وہ مردوں کی نسبت عورتوں کی تعلیم کو ہمیشہ ترجیح دیتا تھا ۔ عاشر کے نزدیک مرد کسی بھی پیشے سے وابستہ ہو سکتا ہے مگر عورت اس زمانے میں اگر تعلیم سے محروم ہے تو اس کو بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے ۔ اگر عورت پڑھ لکھ جائے گی تو کم از کم وہ اپنے حقوق کی جنگ تو اچھے سے لڑ پائے گی  جہاں اس معاشرے میں ایک بھائی بھائی کو زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے قتل کر دیتا ہے ۔ کریم بخش کی بیٹی میڈیکل کی طالبہ تھی ۔ جس کا ایک پاؤں معذوری کا شکار ہے لیکن اس نے کبھی اس کو اپنی کمزوری نہیں سمجھا ۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنے اور ایک  مثال بھی بنے ۔  دنیا میں جہاں ہر طرف لوٹ مار کا بازار سرگرم ہے وہیں وہ غریبوں اور مسکینوں کے لیے مفت علاج کا بندوبست کرے ۔ وہ سمجھتی تھی کہ ڈاکٹر کا پیشہ ایک ایسا پیشہ ہے جو اگر اپنے فرائض کو بخوبی سر انجام دیں تو وہ دونوں جہاں میں امر ہو سکتا ہے ۔

     حسب معمول کریم بخش باغ میں اپنے کام میں مشغول تھا کہ اچانک ایک کم سن  بچی اس کے پاس آتی ہے جس کے سر پر ڈوپٹہ پھٹا ہوا ، چہرے پر دھول نمایاں ، پہنے ہوٸے کثیف کپڑے اور پاٶں میں پھٹی ہوٸی چپل  یک دم اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہیں : ”بابا!  اللہ کے واسطے میں نے دو دن سے کھانا نہیں کھایا مجھے کچھ پیسے دے دیں ۔“ کریم بخش نے جب اس بچی کو دیکھا تو اسے اپنی بچی اس کم سن لڑکی میں دکھائی دی اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور اس نے اس بچی کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا  اور جو کھانا وہ گھر سے اپنے لیے لایا تھا وہ کریم بخش نے کم سن لڑکی  کو دے دیا مگر اس کم سن لڑکی نے  وہ کھانا لینے سے انکار کرتے ہوٸے کہا ” مجھے پیسے ہی چاہیے ۔“  کریم بخش نے یہ سوچھے سمجھے بغیر کہ آج کے اس افرا تفری دور میں جہاں گداگری کا پیشہ کچھ لوگوں نے پیشے کے طور پر اور کچھ لوگوں نے مجبوری کے تحت استعمال کیا ہوا ہے وہ اس لڑکی کو ٹال بھی سکتا تھا لیکن اس نے اپنے جیب میں جتنے پیسے تھے اس لڑکی کو دے دٸیے ۔  بالآخر وہ لڑکی تو چلی گئی لیکن کریم بخش کے ذہن میں ایک گہرا نقش چھوڑ گٸ ۔  کریم بخش سارا دن باغ میں سارا دن اس لڑکی کے بارے میں سوچتا اور  فکر مند رہتا کہ آخر کتنے ہی ایسےمعصوم اس قدر مجبور ہیں اور کب تک یہ ایسے ہی رہیں گے ؟ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ بالآخر وہ شام کے وقت جب گھر پہنچا تو گھر کے آنگن میں کرسی پر بیٹھا اور یہی سوچتا رہا  ۔ کریم بخش کی آنکھوں کے سامنے دن کا سارا منظر گردش کرتا رہا ۔ کریم بخش کے تینوں بچے اس دوران میں اس کے پاس آتے ہیں اور استفسار کرتے ہیں کہ بابا جان ! آج آپ کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں ۔ کریم بخش بچوں کو اپنے پاس بٹھاتا ہے اور سارے دن کی روداد سناتا ہے کچھ پل کے لیے تینوں بچے خاموش رہتے ہیں بالآخر بڑے بیٹے (ناصر)  نے کہا :” بابا!  یہ تو آئے روز کا قصہ ہے کچھ لوگ مجبوری اور کچھ لوگ اس کو اپنا دھندہ سمجھ لیتے ہیں ۔ آپ پریشان نہ ہوں ۔ “ ناصر نے کہا : ” جی بابا جب تک تعلیم عام نہیں ہوگی ایسا ہی ہوتا رہے گا ۔ “عاصمہ  نے بھی خاموشی ختم کرتے ہوئے کہا بابا مجھے پتہ ہے کہ اپ کو اس کے روپ میں اس کے روپ میں میرا چہرہ  نظر آیا  ہو گا ۔ بچوں کے ساتھ عہد حاضر میں بہت پورا سلوک ہو رہا ہے  سب کچھ دیکھتے ہوٸے بھی سب لوگ ان دیکھا کر دیتے ہیں ۔ “ باپ نے تینوں بچوں کے  سر پہ شفقت بھرا ہاتھ رکھا اور مسکراتے ہوٸے  کہا : 
” میری بات غور سے سنو !  یہ سب قسمت کا کھیل بھی  ہے مگر آپ کے پاس عقل و شعور کی نعمت ہے  جب بھی کوئی سائل آپ کے پاس آئے یہ دیکھے  بغیر کہ وہ ضرورت مند ہے یا نہیں سب سے پہلے آپ نے مسکراتے ہوئے پیش آنا ہے ۔ مسکراہٹ دنیا کا سب سے  انمول تحفہ اور عمل ہے ۔ دنیا میں وہی شخص کامیاب رہتا ہے جو خوشیاں تقسیم کرتا ہے اور دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے ہوئے اسے یہ  کہہ دے  آپ اپنے دکھ مجھے دے دیں آپ کے چہرے پر سوائے مسکراہٹ کے کچھ اچھا نہیں لگتا ۔ لوگوں کے چہروں پر دکھ کی بجائے حقیقی مسکراہٹ بکھیرنا ایک فن ہے ۔ زندگی کا حسن پیسہ نہیں ۔ پیسہ تو بس ضرورت ہے جس کو پورا کیا جاتا ہے اس کے لیے کسی دوسرے کا امن و سکون برباد نہیں کیا جاتا ہے ۔  میں نے اپنے ساری زندگی کسی کے ساتھ کوئی جھگڑا یا تلخ کلامی نہیں کی جو بھی ملا اس کے ساتھ مسکراتے ہوئے ملا اور یہی امید آپ سے ہے ۔“
کریم بخش کے بچے باپ کی یہ نصیحت سننے کے بعد اپنے والد کی سے یہ  عہد کرتے ہیں کہ حالات جیسے بھی ہوں آپ کی اس نصیحت پر ہم ہمیشہ عمل کریں گے ۔ اگلے روز حسب معمول ناصر کاروبار کی غرض سے شہر کا رخ کرتا ہے کہ اچانک ایک تیز رفتار گاڑی سے اس کی گاڑی ٹکرا جاتی ہے اور اسے تشویش ناک حالت میں ہسپتال منتقل کر دیا جاتا ہے ۔  ناصر کی خبر سن کر کریم بخش اور اس کا بھائی عاشر ہسپتال پہنچ جاتا ہے ۔ناصر کو سر پر گہری چوٹ لگی ہوتی ہے راستے میں اس کا خون کافی حد تک بہہ چکا ہوتا ہے ۔ ناصر کے چہرے پر اس وقت بھی مسکراہٹ بکھری ہوئی ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر عامر ، ناصر کو دیکھتا ہے اور فورا اسے آپریشن تھیٹر میں منتقل کر دیتا ہے اور کریم بخش سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ” جان لینے والا اوردینے والی ذات اللہ پاک کی ہے ۔ ہم اپنی طرف سے کوشش کریں گے ،  آپ باقی لوازمات پورے کریں ۔ “  آپریشن تھیٹر کا دروازہ بند ہو جاتا ہے ۔ کریم بخش ایک پل دیوار سے ٹکرا کر یہ کہ رہا ہوتاہے میرا لخت جگر ، فرزند اکبر ، میرا ناصر کیا اب اس کا مسکراتا چہرہ دیکھ پاوں گا ؟ کریم بخش کو علاج کے لیے  پانچ لاکھ رقم بتائی جاتی ہے ، پریشانی کے  عالم میں قصبہ برہان کی جانب رخ کرتا ہے اور وہاں پہنچتا ہے تو عجب منظر  دیکھتا ہے کہ  خبر  جنگل میں آگ کی طرح پورے گاؤں میں پھیل چکی  ہے ۔ لوگ کریم بخش کو دلاسا دیتے ہیں اور سب گاؤں والے اجتماعی تعاون سے رقم جمع کر کے کریم بخش کے ہاتھ میں رکھ دیتے ہیں ۔ کریم بخش کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے وہ سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہسپتال پہنچتا ہے ، جہاں سب کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں ،اتنے میں ڈاکٹر عامر آپریشن تھیٹر سے باہر آتا ہے اور کریم بخش کا مسکراتا چہرہ دیکھ کر اس کے  کندھے  پر ہاتھ رکھتے ہوئے یہ کہتا ہے آپ کا بیٹا ۔۔۔۔۔ ناصر۔۔۔۔۔۔ ناصر۔۔۔۔۔۔۔۔




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے