Header Ads Widget

مظلوم کا ظالم کے خلاف بددعا کرنا کیسا ہے؟

 مظلوم کا ظالم کے خلاف بددعا کرنا کیسا ہے؟


مظلوم کا ظالم کے خلاف دعا کرنے کا حکم


دعا کی طاقت

کہتے ہیں کہ دعا مومن کا ہتھیار اور اس کی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے، جب سارے مادی وسائل و اسباب اپنا اثر گم کر جاتے ہیں تب دعا کی طاقت اپنے جوہر دکھلاتی ہے، دعا عام الفاظ کی مانند محض چند کلمات کا مجموعہ نہیں ہوا کرتی ہے؛ بلکہ دعا مومن کے قلبِ پریشان سے نکلی فریاد ہوتی ہے، سسکتے اور تڑپتے دلوں کی آس ہوتی ہے، مظلوموں اور ستم رسیدوں کی امید ہوتی ہے اور بے آسروں کا آسرا ہوتی ہے، دعا ہی وہ واحد طاقت ور شیئ ہے جو تقدیر کو بدل سکتی ہے۔
دعا جس قدر تڑپ، لگن، اخلاص، حضورِ قلبی اور بےبسی و محتاجی کے احساس کے ساتھ کی جائے اس قدر اس کی طاقت اور اثر آفرینی بڑھتی چلی جاتی ہے، دعا میں یہ قوت و تاثیر اس وجہ سے ہے کہ دعا کرنے والا اپنی بےبسی، محتاجی، پریشانی اور مظلومیت کا شکوہ اپنے پروردگار سے کرتا ہے جو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، جو ساری کائنات کا مالک ہے، جو بڑا رحیم و کریم ہے، جو زبردست طاقت و حکمت والا اور زبردست انتقام لینے والا ہے، جو ساری مخلوقات کی دست گیری اور خبرگیری کرنے والا ہے، جس کی سخاوت اس قدر عام ہے کہ وہ بن مانگے عطا کرتا ہے اور جب مانگا جائے تو اپنی شایانِ شان عطا کرتا ہے۔

ظالم لے لیے بددعا کرنا کیسا ہے؟

ایجادِ عالم سے ہی کرہِ زمین پر کچھ ایسے ناعاقبت اندیش لوگ رہے ہیں جو دولت و طاقت کے نشے میں مخمور و مدہوش ہوکر کمزوروں، بےبسوں، لاچاروں اور غریبوں کو اپنی ستم پروری اور بیداد گری کا ہدف بناتے رہے ہیں۔
چوں کہ نظامِ عالم اسباب و وسائل پر منحصر ہے، بہ ایں وجہ مظلوم افراد طاقت اور وسائل و اسباب کے فقدان کے باعث ستم گروں اور ظلم پروروں سے انتقام کی سکت نہیں رکھتے ہیں اور چپ چاپ اپنی مظلومیت پر صبر کر لیتے ہیں؛ البتہ مظلوموں کے پاس دعا جیسی فولادی قوت کا آسرا ہوتا ہے، اگر وہ ہاتھ اٹھاکر ظالموں کے خلاف بارگاہِ الہی میں مقدمہ دائر کر دے تو خود حق تعالی ظالموں سے انتقام لیتے ہیں اور جس سے ایسی ذات انتقام کے جو عزیز و قہار ہے تو پھر ظالموں کا کیا حشر ہوگا اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

لیکن سوال یہاں یہ ہے کہ کیا ظالموں کے لیے ہلاکت و بربادی کی دعا کرنی چاہیے؟ کیا ان کے لیے بددعا کرنا شرعا جائز ہے؟ آخر شریعت کا موقف اس حوالے سے کیا ہے؟

شرعا ظالموں کے حق میں بددعا کرنا بالکل جائز ہے، جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا. (سورۃ النساء)
ترجمہ: منھ پھوڑ کر برائی بیان کرنے کو اللہ پسند نہیں فرماتے ہیں سوائے مظلوم کے، اور اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی مایہ تفسیر میں اس آیت کریمہ کی ذیل میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی اس بات کو پسند نہیں کرتے ہیں کہ کوئی شخص کسی کے لیے بددعا کرے؛ البتہ مظلوم کو اللہ تعالی نے اجازت دی ہے کہ وہ ظالم کے لیے بددعا کر سکتا ہے۔

ظالم کے خلاف بددعا کرنے کے طریقے اور ان کا حکم

ظالم کے خلاف بددعا کرنے کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں، ذیل میں انھیں بیان کیا جاتا ہے:

(۱) صرف یہ دعا کرنا کہ اللہ تعالی اسے ظالم سے الگ تھلگ رکھے اور اس کے ظلم کا نشانہ بننے سے بچائے۔ اس طرح دعا کرنا مستحسن ہے۔

(۲) یہ دعا کرنا کہ اللہ تعالی ظالم کے اہل و عیال کو ہلاک و برباد کردے، درآں حالیکہ اس کی اولاد اور اس کے اہل کا اس کے ظلم سے کوئی تعلق نہ ہو۔ اس قسم کی دعا کرنا ممنوع ہے؛ کیوں کہ اس میں ایسے لوگوں کی تکلیف کی خواہش کرنا ہے جنھوں نے اس پر کوئی زیادتی نہیں کی ہے۔

(۳) ظالم کے خلاف یہ دعا کرنا کہ اس کے جسم میں سخت سے سخت بیماری ہو جائے اور اسے شدید تکلیف لاحق ہو، یعنی اس کے لیے ایسی تکلیف میں مبتلا ہونے کی دعا کرنا جو ظالم کے ظلم کی سزا سے بڑھ کر ہو۔ اس دعا کو بھی مستحسن نہیں سمجھا گیا ہے۔

(۴) یہ دعا کرنا کہ اللہ تعالی ظالم کو کسی سخت گناہ مثلا شراب خوری یا زناکاری وغیرہ میں مبتلا کردے۔ اس قسم کی بددعا بھی ناجائز ہے؛ کیوں کہ دوسروں کے لیے گناہ کی خواہش کرنا بجائے خود گناہ ہے۔

ظالم کے ساتھ مظلوم کا معاملہ

جس شخص پر کوئی ظلم ہوا اس کو ظالم کے تئیں کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ اس کی بھی چند صورتیں ہیں جو درج ذیل ہیں:

(۱) مظلوم ظالم کو درگزر کر دے اور معاف کردے، اس امید پر کہ حق تعالی کے یہاں اس معاف کرنے اور درگزر کرنے کا بہت بڑا اجر ہے۔
ایسا کرنا سب سے افضل ہے۔

(۲) مظلوم اپنے ظلم کا ظالم سے کسی طرح مثلا عدالت وغیرہ کے ذریعے بدلہ لے اور اس میں کوئی زیادتی نہ کرے۔
یہ صورت جائز ہے۔

(۳) مظلوم ظالم کو فقط دنیا میں معاف کردے، یعنی اس سے بدلہ لینے کے لیے دنیوی عدالتوں وغیرہ کا سہارا نہ لے؛ البتہ اپنا حق آخرت کے لیے محفوظ رکھے کہ اللہ تعالی اسے انصاف دیں گے اور ظالم سے بدلہ لیں گے۔
یہ صورت بھی مستحسن ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے