قربانی کی فضیلت و اہمیت پر احادیث
قربانی ایک اسلامی شعار اور اہم مالی عبادت ہے، دنیا بھر میں ہر سال کروڑوں مسلمان بصد شوق راہِ خدا میں اپنے محبوب جانور کی قربانی دیکر اطاعت و فداکاری اور تسلیم و رضا کا ثبوت پیش کرتے ہیں، قربانی اگر چہ دینِ اسلام کا ایک واجبی اور مستقبل حکم ہے؛ لیکن اس کی مشروعیت کا پس منظر اطاعت و وفاداری اور عشق و فداکاری کی ایک لازوال اور بےمثال تاریخ کو محیط ہے جس سے یقینا ہر باشعور مسلمان واقف ہے۔
قربانی کے جس عمل کو ہم ہر سال انجام دیتے ہیں وہ ایک باپ اور بیٹے کی ایثار و فدائیت اور اطاعت و فرمانبرداری کی یادگار ہے، وہ باپ اور بیٹے سیدنا حضرت سیدنا ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام ہیں جنھوں نے اطاعت و وفاداری اور تسلیم و رضا کا ایسا عظیم کارنامہ انجام دیا جس کو تاریخ کے اوراق میں تابناک، روشن اور سنہرے جلی حروف سے رقم کیا گیا۔
آخر تاریخ اس لمحے کو کیسے فراموش اور نظر انداز کر سکتی ہے، جس وقت ایک باپ اپنے لختِ جگر اور نورِ نظر کی گردن پر حکمِ خداوندی کی تعمیل میں چھری پھیر رہا تھا اور آسمان و زمین ساکت و صامت اس تحیر آفریں منظر کو حیرت سے تک رہے تھے، ہوائیں ساکن ہوکر اس پر استعجاب نظارے کا معاینہ کر ہی تھیں اور ملائکہ رشک بھری نگاہوں سے اطاعت و وفاشعاری کی داد دے رہے تھے۔
اس عظیم قربانی سے یقینا سبھی واقف ہیں، اس لیے اس کی تفصیل کے بیان سے قطعِ نظر آئیے جان لیتے ہیں کہ قرآن و سنت کی روشنی میں قربانی کی فضیلت و اہمیت کیا ہے؟
قربانی کی اہمیت و فضیلت
قربانی ایام نحر کا افضل ترین عمل
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ما عملَ آدميٌّ منْ عملٍ يومَ النحرِ، أحبَّ إلى اللهِ منْ إهراقِ الدمِ إنها لتأتي يومَ القيامةِ بقرونِها، وأشعارِها، وأظلافِها، وإنَّ الدمَ ليقعَ من اللهِ بمكانٍ، قبلَ أن يقعَ على الأرضِ، فطيبُوا بها نفسًا. (رواه السيوطي في الجامع الصغير)
ترجمہ: ایامِ بحر (قربانی کے دنوں) میں اولاد آدم کا کوئی بھی عمل اللہ تعالی کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ محبوب و پسندیدہ نہیں ہے، اور بروزِ قیامت قربانی کا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت آئےگا، اور جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ کی خوشنودی اور رضا کے مقام کو پہنچ جاتی ہے، پس تم خوشدلی سے قربانی کیا کرو۔
قربانی سنتِ خلیل اللہ اور اس کے ہر بال کے عوض نیکی
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں:
قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا هَذِهِ الْأَضَاحِيُّ؟، قَالَ سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ، قَالُوا فَمَا لَنَا فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ بِكُلِّ شَعَرَةٍ حَسَنَةٌ، قَالُوا فَالصُّوفُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ بِكُلِّ شَعَرَةٍ مِنَ الصُّوفِ حَسَنَةٌ. (مسند أحمد و ابن ماجة)
ترجمہ: صحابہ کرام نے دریافت کیا یارسول اللہ! قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ تمہارے والد ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہمیں قربانی سے کیا ملےگا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بال کے عوض (بدلے) ایک نیکی ملےگی۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ اور بھیڑ میں؟
آپ نے فرمایا: بھیڑ کے ہر بال کے بدلے بھی ایک نیکی ملےگی۔
قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے پروانۂ بخشش
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا فَاطِمَةُ، قُومِي فَاشْهَدِي أُضْحِيَّتَكِ، فَإِنَّهُ يُغْفَرُ لَكِ بِأَوَّلِ قَطْرَةٍ مِنْ دَمِهَا كُلُّ ذَنْبٍ عَمِلْتِيهِ، وَقُولِي: إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ. قَالَ عِمْرَانُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لَكَ وَلِأَهْلِ بَيْتِكَ خَاصَّةً، فَأَهْلُ ذَاكَ أَنْتُمْ، أَوْلِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً؟ قَالَ: بَلْ لِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً. (المعجم الكبير، سنن الكبرى للبيهقي)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے فاطمہ! اٹھو اور اپنی قربانی کے جانور کو دیکھو؛ اس لیے کہ اللہ تعالی اس کے خون کے پہلا قطرہ زمین پر گرتے ہی تمہارے گذشتہ گناہوں کو معاف کر دےگا، اور کہو کہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی و موت خالص اللہ کے لیے ہے جو سارے عالم کا پالنہار ہے۔
حضرت عمران نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا یہ فضیلت و خصوصیت آپ کے اور آپ کے اہلِ بیت کے ساتھ خاص ہے یا عام مسلمانوں کے لیے بھی ہے؟
آپ نے فرمایا: بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔
قربانی نہ کرنے پر وعیدِ شدید
اسلام میں قربانی کی بہت تاکید و اہمیت آئی ہے، قربانی ہر عاقل بالغ صاحبِ نصاب شخص پر واجب ہے؛ چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مَن كان له سَعَة، ولمْ يُضَحِّ، فلا يَقْرَبَنّ مُصَلّانا. (ابن ماجة)
ترجمہ: جو شخص وسعت پائے اور قربانی نہ کرے وہ ہرگز ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔
لہذا ہر مسلمان کو نہایت اخلاص اور پاکیزگی کے ساتھ قربانی کا عمل انجام دینا چاہیے، گوشت خوری یا ریاکاری کی نیت سے اگر قربانی کی جائے تو وہ مقبول تو درکنار وبالِ جان بن جائےگی، اللہ تعالی در حقیقت دلوں کے اخلاص کو دیکھتا ہے، اس کے پاس قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا اس کے پاس دلوں کا تقوی پہنچتا ہے۔
اسی طرح اس خوشی کے موقع پر نادار و مفلس اور مفلوک الحال مسلمانوں کو ہرگز فراموش نہ کرنا چاہیے؛ بلکہ ان کے پاس بھی قربانی کا گوشت بھیجا جائے اور خوشیوں میں شریک کیا جائے، اسی طرح رشتہ داروں اور متعلقین کو بھی گوشت بھیجا جائے اس سے دلی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔
اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو خلوصِ قلب کے ساتھ قربانی کرنے توفیق دے اور سب کی قربانیوں کو شرفِ قبولیت عطا کرے۔
0 تبصرے
تبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!