Header Ads Widget

صدقہ کی اہمیت و فضیلت احادیث کی روشنی میں

 صدقہ کی اہمیت و فضیلت پر احادیث


صدقہ کی اہمیت و فضیلت پر احادیث



انسانی دولت و ثروت کا سب سے بہترین مصرف انفاق فی سبیل اللہ ہے، یعنی راہِ خدا میں اپنے مال و دولت کو اس کی رضاجوئی کی نیت سے نثار کر دینا، شرعی اصطلاح میں اس عمل کو صدقہ سے موسوم کیا گیا ہے۔
صدقہ و خیرات بہت سی فضیلتوں کی حامل اور بےشمار اجر و ثواب کا باعث ہے، متعدد قرآنی آیات اور کئی احادیث مبارکہ اس کی فضیلت و اہمیت بیان کرتی ہیں، صدقہ اللہ کے نزدیک بےحد پسندیدہ عمل ہے، صدقہ غضبِ الہی سے نجات دیتا ہے، صدقہ کی وجہ سے مال میں برکتیں آتی ہیں، صدقہ رضائے الہی کے حصول کا بہترین سبب اور مخلوقاتِ الہیہ کے ساتھ ہمدردی و غم گساری، خیر و بھلائی اور اعانت و دست گیری کا بہترین ذریعہ ہے۔
صدقہ سے نہ صرف صدقہ دہندگان کا فائدہ ہے کہ اسے نیکیاں حاصل ہوتی ہیں؛ بلکہ باہمی تعاون و امداد کی بنا پر معاشرے سے معاشی ابتری کی وبا کا خاتمہ بھی ہوتا ہے، جس سے ایک صالح خوددار اور متمول معاشرہ تشکیل پاتا ہے جہاں نہ صرف اہل ثروت خوش حال زندگی گزارتے ہیں؛ بلکہ غریبوں، مسکینوں اور متوسط الحال افراد کی زندگی بھی آسودہ حالی اور خوش معاشی میں گزرتی ہے، غرض صدقہ عبادت کے ساتھ ساتھ تعاون و تکافل اور امداد باہمی کا بہترین ذریعہ ہے، جس پر حق تعالی نے ڈھیروں اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا ہے۔

اس تحریر میں صدقہ و خیرات کی اہمیت و فضیلت پر چند احادیث جمع کی گئی ہیں؛ تاکہ بخوبی ان کے فضائل کا ادراک و اندازہ ہو اور تلاش کرنے والوں کو صدقہ و خیرات کے موضوع پر احادیث یکجا مل جائیں۔


صدقہ مال میں زیادتی کا سبب

صدقہ مال میں برکت اور زیادتی کا سبب ہے، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

ما نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِن مالٍ. (رواہ مسلم)
ترجمہ: صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا ہے۔

چناں چہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے راہِ خدا میں مال خرچ کرنے والوں کی مثال بیان فرمائی ہے کہ ان کی مثال اس تخم کی مانند ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوتی ہیں اور ان بالیوں میں سات خوشے ہوتے ہیں اور ہر خوشے میں سو دانے ہوتے ہیں، اور اللہ تعالی چاہے تو اس پر بھی مزید اضافہ فرما دیتے ہیں۔


صدقہ دینے والوں کے حق میں ملائکہ کی دعائیں

صدقہ دینے والے کے حق میں ملائکہ دعائیں کرتے ہیں؛ چناں چہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ما مِن يَومٍ يُصْبِحُ العِبادُ فِيهِ، إلَّا مَلَكانِ يَنْزِلانِ، فيَقولُ أحَدُهُما: اللَّهُمَّ أعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، ويقولُ الآخَرُ: اللَّهُمَّ أعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا. (صحیح بخاری)

ترجمہ: کوئی دن ایسا نہیں جاتا جس میں بندے صبح کرتے ہوں اور دو فرشتے آسمان سے نہ اترتے ہوں کہ ان میں سے ایک کہتا ہے، اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے، اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ بخیل اور نہ دینے والے کے مال کو ہلاک کردے۔

حدیث پاک کا مفہوم ظاہر ہے کہ دو فرشتے صبح کو آسمان سے زمین پر وارد ہوتے ہیں پھر ان میں سے ایک صدقہ کرنے اور راہِ خدا میں مال خرچ کرنے والے کے حق میں دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! اس کو اس کے عمل کا بدلہ عطا فرما، دنیا کا بدلہ تو یہ ہے کہ مال میں برکت پیدا ہو اور مصائب و آفات سے نجات حاصل ہو اور آخرت کا بدلہ تو نیکیوں کے ذخیرے کی صورت میں حاصل ہوگا۔
دوسرا فرشتہ بخیل اور تنگ چشموں کے لیے جو مال کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور راہِ خدا میں صرف نہیں کرتے، یہ بد دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! ایسے شخص کا مال ہلاک و برباد فرما۔

صدقہ دل کی نرمی کا سبب

صدقہ دلوں کو نرم کرتا ہے، چناں چہ ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سنگ دلی اور قساوتِ قلبی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
إِنْ أَرَدْتَ أَنْ يَلِيْنَ قَلْبُكَ، فَأَطْعِمِ الْمِسْكِيْنَ، وَاِمْسَحْ رَأْسَ الْيَتِيْمِ. (مسندِ احمد)
ترجمہ: اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہو تو مسکینوں کو کھانا کھلایا کرو اور یتیموں کے سر پر شفقت کے ساتھ ہاتھ پھیرا کرو۔


صدقہ کرنے والے کے لیے درجات کی بلندی

یہاں پر ایک جامع اور قدرے طویل حدیث پیش کر دینا مناسب سمجھتا ہوں:
عَنْ سَعِيدٍ الطَّائِيِّ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ أَنَّهُ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو کَبْشَةَ الْأَنَّمَارِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ثَلَاثَةٌ أُقْسِمُ عَلَيْهِنَّ وَأُحَدِّثُکُمْ حَدِيثًا فَاحْفَظُوهُ قَالَ مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِنْ صَدَقَةٍ وَلَا ظُلِمَ عَبْدٌ مَظْلَمَةً فَصَبَرَ عَلَيْهَا إِلَّا زَادَهُ اللَّهُ عِزًّا وَلَا فَتَحَ عَبْدٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ إِلَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ بَابَ فَقْرٍ أَوْ کَلِمَةً نَحْوَهَا وَأُحَدِّثُکُمْ حَدِيثًا فَاحْفَظُوهُ قَالَ إِنَّمَا الدُّنْيَا لِأَرْبَعَةِ نَفَرٍ عَبْدٍ رَزَقَهُ اللَّهُ مَالًا وَعِلْمًا فَهُوَ يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَيَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَيَعْلَمُ لِلَّهِ فِيهِ حَقًّا فَهَذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللَّهُ عِلْمًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ مَالًا فَهُوَ صَادِقُ النِّيَّةِ يَقُولُ لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلَانٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَأَجْرُهُمَا سَوَائٌ وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللَّهُ مَالًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ عِلْمًا فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ لَا يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَلَا يَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَلَا يَعْلَمُ لِلَّهِ فِيهِ حَقًّا فَهَذَا بِأَخْبَثِ الْمَنَازِلِ وَعَبْدٍ لَمْ يَرْزُقْهُ اللَّهُ مَالًا وَلَا عِلْمًا فَهُوَ يَقُولُ لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلْتُ فِيهِ بِعَمَلِ فُلَانٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَوِزْرُهُمَا سَوَائٌ. (جامع الترمذی)

حضرت سعید طائی ابوالبختری سے روایت سے وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوکبشہ انماری رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: میں تین باتوں پر قسم کھاتا ہوں اور تمھیں ایک بات بیان کر رہا ہوں؛ لہذا تم اسے یاد رکھو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ کرنے سے بندے کے مال میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ہے۔ (یہ پہلی بات ہے) اور کسی بندے پر کوئی ظلم ہو اور وہ اس پر صبر کا مظاہرہ کرے تو اللہ تعالی اس کی عزت بڑھا دیتے ہیں۔ (یہ دوسری بات ہے) اور جو بندہ مانگنے کے لیے کسی کا دروازہ کھولتا ہے اللہ تعالی اس کا فقر بڑھا دیتے ہیں۔ (یہ تیسری بات ہے)۔ راوی کہتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہم معنی  کوئی بات ارشاد فرمائی۔
اور فرمایا تم لوگوں سے ایک اور بات بیان کر رہا ہوں تم اسے یاد رکھو! آپ نے فرمایا: بےشک دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے، ایک تو وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالی نے مال اور علم عطا کیا ہو، پس وہ اپنے مال (کمانے اور خرچ کرنے) کے سلسلے میں اللہ سے ڈرتا رہتا ہے اور مال کے ذریعے صلی رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا بھی خیال رکھتا ہے، تو ایسے شخص کا درجہ سب درجوں سے بڑھ کر ہے۔ اور ایسا شخص جس کو اللہ تعالی نے علم عطا کیا ؛ لیکن مال عطا نہیں کیا، پھر بھی وہ سچی نیت رکھ کر کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی اس (مالدار) شخص کی طرح خرچ کرتا تو اس کو اس کی سچی نیت کی بنا پر پہلے شخص کی طرح برابر اجر ملےگا۔ اور ایسا شخص جس کو اللہ تعالی نے مال تو عطا کیا؛ لیکن علم سے محروم رکھا، پس وہ اپنے مال میں غلط طریقہ اختیار کرتا ہے علم نہ ہونے کی وجہ سے اور نہ مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں اللہ تعالی سے ڈرتا ہے اور نہ اس کے ذریعے صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ مال میں اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھتا ہے تو ایسے شخص کا درجہ بدترین درجہ ہے۔ اور ایسا شخص جس کو اللہ تعالی نے مال اور علم دونوں سے محروم رکھا، پس وہ کہتا ہے کہ کاش میرے پاس مال ہوتا تو میں اس (مالدار) شخص کی طرح خرچ کرتا، (یعنی غلط راستوں میں خرچ کرتا، نہ اس کے ذریعے صلہ رحمی کرتا اور نہ اللہ کے حقوق کا خیال رکھتا) تو اس پر اس کی نیت کا وبال ہوگا اور دونوں شخص کا عذاب اور بارِ گناہ برابر ہوگا۔
حدیثِ پاک میں جہاں صدقہ دینے والوں کے درجات کے بلند ہونے کی خبر دی گئی ہے وہیں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اس قدر مال کا مالک نہ ہو جس کا وہ صدقہ کر سکے اور محض صدقہ کی نیت و آرزو کی بنیاد پر صدقہ کرنے والے کے جیسا ثواب کا مستحق ہوگا۔


صدقہ کرنے والے کو اللہ کے عرش کا سایہ نصیب ہوگا

ایک مشہور حدیث پاک جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات قسم کے لوگوں کے متعلق فرمایا ہے کہ انھیں بروز قیامت اللہ کے عرش کا سایہ نصیب ہوگا جس دن اس کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، جن میں سے ایک شخص اخلاص کے ساتھ صدقہ کرنے والا بھی ہے؛ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے:
ورجلٌ تَصَدَّق بِصَدقةٍ فَأَخْفَاهَا، حَتّٰى لاَ تَعْلَمَ شِمالُه ما تُنْفِقَ يَمِينُه. (متفق عليه)
 ترجمہ: اور ایسا شخص (عرش کے سایے میں ہوگا) جو اس طرح پوشیدہ طور پر صدقہ کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلے کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔

صدقہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کرتے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا:
و الصَّدقةُ تُطْفِئُ الخطيئةَ كما يُطْفِئُ الماءُ النَّارَ. (صحیح الترغیب)
ترجمہ: اور صدقہ گناہوں کو اس طرح ختم کر دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔

صدقہ کرنا جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: 
اتَّقُوا النَّار ولو بِشِقِّ تمرة. یعنی جہنم سے بچو اگر چہ اس کے لیے کھجور کا ایک ٹکڑا صدقہ کرو۔
اور بخاری و مسلم کی روایت میں اس طرح ہے:
ما منكم من أحد إلا سَيكَلِّمُه رَبُّه ليس بينه وبينه تُرْجُمان، فينظر أيْمَن منه فلا يرى إلا ما قَدَّم، وينظر أَشْأَمَ منه فلا يَرى إلا ما قَدَّم، وينظر بين يديه فلا يرى إلا النار تَلقاء وجهه، فاتقوا النار ولو بِشقِّ تمرة، فمن لم يجد فبِكَلمة طيِّبة. (متفق علیہ)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جس سے اس کا رب ہم کلام نہ ہو، اور اس کے اور اس کے رب کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا (یعنی گفتگو بالمشافہہ بغیر کسی واسطے کے ہوگی) جب بندہ اپنی داہنی طرف نظر ڈالےگا تو وہ چیزیں دیکھے گا جو اس نے آگے بھیج رکھی ہوں گی، اور اپنی بائیں طرف دیکھے تو وہ چیزیں نظر آئیں گے جو اس نے آگے بھیج رکھی ہوں گی، اور وہ اپنے سامنے دیکھے گا تو اسے اپنے چہرے کے سامنے جہنم کی آگ نظر آئےگی، پس تم اس آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا صدقہ کرکے ہی کیوں نہ ہو۔

صدقہ کرنے والے پر اللہ تعالی رحم کا معاملہ فرماتے ہیں

جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا يَرْحَمُ اللَّهُ مَن لا يَرْحَمُ النَّاسَ (صحیح البخاری)
ترجمہ: جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ بھی اس پر رحم نہیں کرتا۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی رحمت کا اسحقاق پانے کے لیے لازم ہے کہ اس کی مخلوقات کے ساتھ رحم اور کرم، خبرگیری اور نصرت و اعانت کا معاملہ کیا جائے۔ اور ظاہر ہے کہ اللہ کے بندوں پر مال خرچ کرنا، ان کو کھلانا پلانا، ان کو پہنانا اوڑھانا، ان کا علاج و معالجہ کرنا اور وہ تمام چیزیں انجام دینا جو ان کی خوشی کا باعث بنے ان پر رحم کرنے کے سب سے بہتر ذرائع ہیں اور یہ تمام چیزیں صدقہ و خیرات سے حاصل ہو جاتی ہیں؛ لہذا صدقہ کرنے والا اللہ کے بندوں پر رحم کرنے والا ہے اور اس رحم کے بدلے اس کو حق تعالی کی لامحدود رحمتیں اپنے حصار میں لے لیں گی۔

صدقہ مصیبتوں سے نجات کا ذریعہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَن نَفَّسَ عن مؤمنٍ كُرْبَةً من كُرَبِ الدُّنيا نَفَّسَ اللهُ عنه كُرْبَةً من كُرَبِ يومِ القِيَامَة، ومن يَسَّرَ على مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللهُ عليه في الدُّنيا والآخرةِ. (صحیح مسلم)
ترجمہ: جس شخص نے کسی مومن کی دنیا کی کوئی پریشانی دور کی، قیامت کے دن اللہ تعالی اس کی پریشانی کو دور فرمائیں گے، اور جس نے کسی تنگ دست اور مفلس الحال کو آسانی پہنچائی اللہ تعالی دنیا و آخرت میں اس کے ساتھ آسانی کا معاملہ فرمائیں گے۔

صدقہ کرنے والا صدقہ کرکے دوسرے مومنوں کی معاشی تنگی دور کرکے اور غریب مسلمانوں کی امداد کرکے اس حدیث پاک کا مصداق بن سکتا ہے۔


اللہ پاک ہم سب کو صدقہ کی اہمیت و فضیلت سمجھنے کی توفیق دے خوب خوب صدقہ و خیرات کی توفیقِ ارزانی سے نوازے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے