Header Ads Widget

اسلام میں اولاد کی تعلیم و تربیت کی اہمیت

 اولاد کی تعلیم و تربیت کی اہمیت


اسلام میں اولاد کی تعلیم و تربیت کی اہمیت


اولاد خالقِ کائنات کی طرف عطا کردہ بیش بہا نعمت ہے، ایک صالح اولاد والدین کے خوابوں کی تعبیر، ان کی آرزوؤں کی تکمیل، بڑھاپے میں ان کے دستِ راست اور قوتِ بازو، خاندانی وجاہت و وقار کا امین، نسلی امتداد کا باعث، ان کی خوبیوں اور صلاحیتوں کا وارث، ان کی آنکھوں کا سرور، قلب و جگر کی راحت، محبتوں کا مرکز اور شفقتوں کی آماجگاہ ہوتی ہے، اولاد رونقِ خانہ ہے، زینتِ بزمِ حیات اور رعنائیِ چمنِ ہستی ہے، وہ ہے تو گلستانِ زندگی میں شادابی، گلوں میں شگفتگی و تازگی اور چراغِ خانہ میں روشنی میں ہے، وہ نہ ہو تو زندگی ہزاروں جلوہ سامانیوں کے باوجود بےرونق و بےکیف معلوم ہوتی ہے، جس گھر میں اولاد کی چہچہیں، معصومانہ شوخیاں اور شرارتیں نہ ہوں اس میں اداسی، خاموشی اور ویرانی کا سماں ہوتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ ازدواجی زندگی سے منسلک ہونے کے بعد ہر جوڑے کو اولاد کی طلب ہوتی ہے، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کہولت کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں مگر ان کے علومِ نبوت و رسالت کا کوئی وارث نہیں ہے، آپ بارگاہِ ایزدی میں دست بدعا ہوکر عرض کرتے ہیں:
رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ. (سورۃ الصافات)
ترجمہ: اے میرے رب مجھے صالح اولاد عطا فرما! 
اور پھر اسماعیل علیہ السلام کی صورت میں انھیں وفاشعار اور صالح اولاد عطا کی جاتی ہے۔


اولاد ایک نعمت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک آزمائش بھی ہے، والدین اگر صحیح نہج اور درست طریقے پر اس کی تربیت و اصلاح اور تادیب و تہذیب کا فریضہ انجام نہ دے تو یہی اولاد وبالِ جان اور سردردی کا باعث بن جاتی ہے، نافرمان اولاد والدین کے چین و سکون اور راحت و اطمینان کا دشمن بن جاتی ہے، ایسی اولاد سے کوئی دنیوی و اخروی نفع حاصل نہیں ہوتا ہے۔
اولاد کے صالح و غیر صالح اور مطیع و فرمانبردار اور نافرمان ہونے میں والدین کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا اہم کردار ہوتا ہے، عموما والدین اولاد سے حد درجہ محبت کی بنا پر اس کی جسمانی نشو و نما اور پرورش و پرداخت پر ساری توجہ مرکوز کر دیتے ہیں اور ان کی اخلاقی و روحانی تربیت و اصلاح کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں، جس کے سبب اولاد کے سنِ شعور تک پہنچتے ہی انھیں اپنی غفلت و بےاعتنائی کا ثمر ظاہر ہوتا دکھائی دینے لگتا ہے، پھر گزرتے وقت کے ساتھ اولاد طرح طرح کی برائیوں اور بدمعاشیوں کی عادی ہو جاتی ہے، اور جب دورِ شباب آتا ہے اور والدین بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں اور انھیں کسی سہارے کی ضرورت پیش آتی ہے اور وہ اپنی اولاد سے اس کی توقع کرتے ہیں تو ان کے پاس کفِ افسوس ملنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں ہوتا، اب انھیں اس کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں برتی گئ غفلت کا احساس ہوتا ہے؛ لیکن  ع
اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چک گئی کھیت



دورِ کم سنی اور والدین کی آغوشِ پرورش میں رہتے ہوئے اولاد کی تعلیم و تربیت کے لیے مجاہدات نہ کئے گئے تو پھر مستقبل میں ان کو صحیح ڈگر پر لانا بڑا دشوار گزار ہو جاتا ہے؛ چناں چہ کہا جاتا ہے کہ ماں کی آغوش انسان کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے اور یہی درس گاہ مستقبل میں اولاد کی سرفرازی اور ارتقا و سربلندی کا فیصلہ کرتی ہے؛ لہذا اولاد جب شکمِ مادر میں ہو اسی وقت سے والدین کو اپنی تعلیمی و تربیتی پہلوؤں کی اصلاح کر لینی چاہیے؛ تاکہ وہ اپنے نونہال اور لختِ جگر کی تعلیم و تربیت کا فریضہ کما حقہ انجام دے سکیں اور اپنی اولاد کی شکل میں اپنا پر سکون، روشن اور راحت بھرا مستقبل تیار کر سکیں۔

اولاد کی تربیت احادیث کی روشنی میں

شریعتِ اسلامیہ نے اولاد کی تعلیم و تربیت کی جانب خصوصی اور تاکیدی طور پر توجہ مرکوز کرنے کا حکم دیا ہے اور اسے والدین کا اہم دینی فریضہ قرار دیا ہے؛ چناں چہ قرآن کریم میں حق تعالی کا ارشاد وارد ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ. (سورة التحريم)
 ترجمہ: مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتشِ جہنم سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔

آیتِ کریمہ کی تفسیر میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: علموهم وأدبوهم یعنی ان کو تعلیم دو اور ادب سکھلاؤ۔ (تفسیرِ طبری)
علمائے کرام اور فقہائے امت نے آیتِ کریمہ سے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے اپنی اولاد اور اہل و عیال کو فرائض و واجباتِ شرعیہ اور حلال و حرام کی تعلیم دینا اور اس پر عمل پیرا کرانے کی کوشش کرنا فرض ہے۔

شریعتِ اسلامیہ میں تربیتِ اولاد کی اہمیت کا اندازہ ذیل کی روایت سے لگائیے!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  ”مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ“ (سنن الترمذی)
ترجمہ: کسی باپ نے اپنی اولاد کو حسنِ ادب سے بہتر کوئی تحفہ نہیں دیا۔
علامہ طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حسنِ ادب کو مال اور عطیات کی جنس سے قرار دینا در اصل اس کی اہمیت میں مبالغہ کرنے کے لیے ہے۔ (مرقات المفاتیح)
یعنی والدین اپنی اولاد کی جسمانی اور مادی پرورش میں جس قدر بھی مال و متاع صرف کر ڈالیں وہ اولاد کے حق میں حسنِ ادب سے زیادہ مفید اور کارآمد نہیں ہے، اولاد پر احسان کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہی ہے کہ اسے تعلیم و تادیب سے آشنا کر دیا جائے۔


حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَن وُلِد له ولدٌ، فليحسن اسمَه وأدبَه، فإذا بلغ فليزوِّجه، فإنْ بلَغ ولم يزوِّجه فأصاب إثمًا، فإنَّما إثمُه على أبيه. (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
ترجمہ: جس کی کوئی اولاد ہو اسے چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اچھا ادب سکھلائے، اور جب وہ بالغ ہو جائے تو اس کا نکاح کردے، اگر وہ بلوغت کو پہنچے اور اس کا نکاح نہ کرے پھر وہ کسی گناہ میں ملوث ہو جائے، تو اس کا گناہ اس کے والد پر ہوگا۔

حدیث پاک سے جہاں اولاد کی اچھی پرورش اور تربیت کی جانب اشارہ ملتا ہے وہیں یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اگر والدین اس کی صحیح تربیت نہ کرے اور اس کے نتیجے میں اولاد کسی برائی میں مبتلا ہو جائے، تو اس کی تربیت میں غفلت کا مظاہرہ کرنے کا گناہ والدین پر ہوگا۔
نیز حدیثِ پاک میں اولاد کی تربیت کے کچھ اصول بھی بیان فرما دیے گیے ہیں کہ سب سے پہلے اس کا اچھا سا نام رکھا جائے، پھر اسے بہترین تعلیم و تربیت سے روشناش کیا جائے اور جب وہ بالغ ہو جائے تو اس کا فورا نکاح کردے؛ تاکہ وہ دوسری برائیوں سے محفوظ رہے۔


اولاد کی تربیت کی دینی تربیت سے حوالے سے یہ مشہور حدیث ملاحظہ فرمائیں:
مُرُوا أولادَكم بالصلاةِ وهم أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، واضْرِبُوهُمْ عليها، وهم أَبْنَاءُ عَشْرٍ، وفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ في المَضَاجِعِ (ابوداؤد)
ترجمہ: جب تمہاری اولاد سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو انھیں نماز کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز میں کوتاہی برتنے پر انھیں مارو اور ان کا بستر بھی الگ الگ کردو۔

تربیتِ اولاد والدین پر ایک عظیم ذمہ داری ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:  
إنَّ الوالِد مسؤول عن الولَد، وإنَّ الولد مسؤول عن الوالد"؛ يعني: في الأدَب والبِرِّ. (الزہد لابن السری)
ترجمہ: بےشک باپ بیٹے کا ذمہ دار ہے اور بیٹا باپ کا ذمہ دار ہے، یعنی ادب سکھلانے میں اور نیکی کا معاملہ کرنے میں۔

یعنی جس طرح اولاد پر والدین کے ساتھ نیکی، بھلائی اور حسن سلوک کا معاملہ کرنا واجب ہے، اسی طرح باپ پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کو علم و ادب سے آراستہ کرے۔

ان مذکورہ بالا روایات سے اولاد کی تعلیم و تربیت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا کہ اسلام نے اس پر کس قدر زور اور اس کا تاکیدی حکم دیا ہے، مگر اس کے باوجود امتِ مسلمہ اس عظیم فریضے سے غفلت و پہلوتہی اختیار کر رہی ہے، اور تعلیم کے حوالے سے فقط دنیوی تعلیم پر اکتفا کر رہی ہے اور ان کی دینی تربیت و اصلاح کو پسِ پشت ڈال بیٹھی ہے، ایسے لوگوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے کہ ان کی اس غفلت کا ثمرہ فقط آخرت میں ہی ظاہر نہیں ہوگا؛ بلکہ دنیا میں بھی اس کی سزا کا کچھ حصہ ضرور ملےگا۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے ڈگری ہولڈر اور عصری علوم سے آراستہ اولاد اپنے والدین کے ساتھ کس قدر ظالمانہ رویہ اختیار کرتے ہیں بسااوقات ان پر ہاتھ بھی اٹھا دیتے ہیں دربدر کر دیتے ہیں، ایسے واقعات عام مشاہدے میں آئے روز آتے رہتے ہیں؛ لہذا اس پر تفصیل سے کلام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے؛ بلکہ لوگوں کو از خود ان روح فرسا اور دل سوز واقعات سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے