Header Ads Widget

نماز میں خشوع و خضوع کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں

 نماز میں خشوع و خضوع کی اہمیت 


نماز میں خشوع و خضوع کی اہمیت


نماز اسلام کا اساسی رکن ہے، عبادات کے اندر اس کی فضیلت سب سے نمایاں ہے، نماز میں بندۂ مومن اپنے خالق و مالک سے سرگوشیاں کرتا ہے، اس کی حمد و ثنا بیان کرتا ہے، اس سے ہدایت طلب کرتا ہے، اس کے سامنے اپنی جبین نیاز خم کرکے عبدیت کا اظہار کرتا ہے اور اس کی خالقیت و معبودیت کو تسلیم کرتا ہے۔
نماز کے جہاں بےشمار اخروی فوائد ہیں وہیں اس کے دنیاوی فوائد بھی کم نہیں ہیں، نماز ادا کرنے سے پریشانیوں، مصیبتوں اور غموں سے نجات ملتی ہے، رزق میں فراخی و وسعت پیدا ہوتی ہے، چہرے سے بندگی کا نور جھلکتا ہے، سکون و طمانینت اور راحت و آرام کا احساس ہوتا ہے اور نہ جانے اس کے علاوہ کتنے فوائد ہیں جو نماز کی برکت سے حاصل ہوتے ہیں۔
نماز کے ان فوائد و اثرات کا ظہور اس وقت ہوتا ہے جب اس کو اس کی شان کے مطابق اخلاص و للہیت کے سانچے میں ڈھل کر نہایت خشوع و خضوع اور تمام شرائط و ارکان کی کامل رعایت سے ساتھ ادا کیا جائے، آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بڑی تعداد پابندی کے ساتھ نماز پڑھتی ہے؛ لیکن ساتھ ساتھ دوسرے منکرات اور معصیات میں مبتلا بھی ہوتی ہے؛ حالاں کہ نماز کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے کہ وہ بےحیائی اور برے کاموں سے روکنی والی ہے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ لوگ نماز پڑھنے کے باوجود گناہوں میں ملوث رہتے ہیں؟
اس کا جواب بالکل صاف ہے کہ ایسے لوگوں کی نماز خشوع و خضوع سے خالی ہوتی ہے وہ نماز تو پڑھ رہے ہوتے ہیں اس کا جسم تو مسجد میں ہوتا ہے؛ لیکن اس کا ذہن و دل کسی اور وادی میں بھٹک رہا ہوتا ہے، ان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ خدا کی بارگاہ میں کھڑے ہیں کہ ادب و احترام اور حضور قلبی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے؛ بلکہ اس کے ذہن میں مختلف خیالات و وساوس گردش کر رہے ہوتے ہیں، نہ وہ ٹھیک سے ارکان ادا کرتے ہیں، نہ تسبیحات کو اطمینان سے پڑھتے ہیں، نہ قرأت قرآن کو بغور سماعت کرتے ہیں اور نہ ٹھیک سے رکوع و سجدہ کرتے ہیں؛ بلکہ رسمی طور پر جھٹ پٹ نماز پڑھ کر مسجد سے نکل جاتے ہیں، بھلا ایسی نمازیں اس قابل کیوں کر ہو سکتی ہیں کہ وہ برائیوں اور بےحیائیوں سے روکیں۔
 خشوع و خضوع نماز ہی کی نہیں؛ بلکہ تمام عبادات کی روح ہے، اگر عبادات اس سے خالی ہوں تو وہ محض برائے نام عبادت ہے، اس کی کوئی خاص فضیلت اور مقام نہیں ہے، عبادات کے فضائل و فوائد کا مدار اس بات پر ہے کہ اس کو کس طریقے سے انجام دیا گیا ہے اور اس میں اخلاص اور خشوع و خضوع کس قدر موجود ہے، معمولی سے معمولی عمل بھی خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیے جانے پر فضائل کے معاملے میں بڑے سے بڑے عمل پر فوقیت حاصل کر لیتا ہے۔
ذیل میں نماز میں خشوع و خضوع کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کی جا رہی ہے۔


نماز میں لذت حاصل ہونا

نماز میں جب اخلاص اور خشوع و خضوع کا عنصر شامل ہوتا ہے تو اس کی ادائیگی میں کسی قسم کی گرانی اور مشقت کا احساس نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ اس کے اندر لذت محسوس ہونے لگتی ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا ہے: 
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ. (سورة البقرة) 
ترجمہ: اور تم صبر اور نماز کے ذریعے مدد حاصل کرو، بےشک وہ یقینا بھاری ہے مگر ان لوگوں پر (بھاری نہیں ہے) جو خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔
یعنی نماز کی ادائیگی یقینا گراں اور دشوار گزار ہے؛ لیکن یہ دشواری ان لوگوں کو درپیش ہوتی ہے جن کی نمازوں میں اخلاص و للہت اور خشوع و خضوع کا فقدان ہوتا ہے؛ ورنہ اللہ کے وہ بندے جو حقیقۃ اس کی طرف جھکنے والے اور نمازوں میں خشوع و خضوع اختیار کرنے والے ہیں نماز کی ادائیگی میں کسی قسم کی دشواری اور مشقت کا احساس نہیں کرتے ہیں؛ بلکہ وہ اس سے لذت یاب اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔

کامیابی کی بشارت

ایک دوسرے مقام پر اللہ تبارک و تعالی نے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے والے مومنوں کو کامیابی و کامرانی کی بشارت دی ہے؛ چناں چہ ارشاد فرماتے ہیں:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ، الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ. (سورة المومنون)
 ترجمہ: تحقیق کہ وہ مومنین کامیاب ہوئے جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔


گناہوں کی معافی

نیز حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ نماز میں خشوع و خضوع کی اہمیت کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

ما منْ امْرِئٍ مسلم تَحْضُرُهُ صلاة مكتوبة فَيُحْسِنُ وضوءها؛ وخشوعها، وركوعها، إلا كانت كفَّارة لما قبلها من الذنوب ما لم تُؤتَ كبيرة، وذلك الدهر كلَّه (صحیح مسلم)
ترجمہ: جس مسلمان کی نماز فرض نماز کا وقت آ جائے اور وہ اچھی طرح وضو کرے، اچھی طرح خشوع کے ساتھ ادا کرے، بہترین طریقے سے رکوع کرے تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جائےگی جب تک کہ وہ کسی گناہ کبیرہ کا ارتکاب نہ کرے اور یہ فضیلت تمام زمانے کے لیے۔

حدیث مبارکہ میں خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کے پچھلے تمام صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اور جب بھی وہ اس طریقے پر نماز پڑھےگا اسے یہ فضیلت حاصل ہوگی، یعنی یہ فضیلت فقط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کے دور کے ساتھ خاص نہیں ہے؛ بلکہ تا صبح قیامت جو بھی بندۂ مومن ایسا کرےگا وہ اس فضیلت سے بہرہ یاب ہوگا۔
ساتھ ساتھ حدیث پاک میں خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے کا طریقہ بھی بیان کر دیا گیا کہ نماز کو اس کے مستحب وقت پر ادا کرے، اچھی طرح وضو کرے یعنی وضو میں جتنی چیزیں سنت ہیں ان تمام کی کامل رعایت کے ساتھ وضو کرے، پھر نہایت سکون و  اطمینان اور دل و دماغ کو حاضر رکھ نماز ادا کرے کسی قسم کی جلدبازی نہ کرے، پھر نماز کے تمام ارکان مثلا قیام و قعود، رکوع سجدہ وغیرہ سب کو اچھی طرح سنت طریقے سے ادا کرے، جب انسان اس طرح نماز ادا کرےگا تب اس کی نماز گناہوں کا کفارہ بنےگی اور برائیوں اور بے حیائیوں سے روکے گی۔


جنت کا مستحق ہونا

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

ما من مسلم يتوضأ فيُحسن وُضُوءه، ثم يقوم فيصلي ركعتين، مقبل عليهما بقلبه ووجهه، إلا وجَبَتْ له الجنة. (صحیح مسلم)
ترجمہ: جو بھی شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر نہایت یکسوئی اور توجہ کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کرتا ہے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔

حدیث میں مذکور دو رکعتیں تحیۃ الوضو (نفل) کی ہیں، جن کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیے جانے پر جنت کی بشارت مل رہی ہے، تو بھلا فرائض کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنے پر انسان جنت کا مستحق کیوں نہیں ہوگا۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے