Header Ads Widget

شیطان کے وسوسوں کا علاج

شیطان کے وسوسوں سے کیسے بچیں؟ 


شیطان کے وسوسوں سے کیسے بچیں


یہ دنیا آزمائش و ابتلا کی آماجگاہ ہے؛ لہذا جو بھی یہاں آئےگا اسے آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑےگا، دنیا میں انسان کو آزمائشوں سے مفر نہیں، یہ اللہ تعالی کا اٹل قانون ہے، ابتلا و آزمائش کے ذریعہ ہی کھرے اور کھوٹے افراد کے درمیان امتیازی سرحد قائم ہوتی ہے، اسی کے ذریعہ لوگوں کی ایمانی صداقت اور یقینی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔
آزمائشیں اپنی مختلف نوعیتوں اور شکلوں میں ظہور پذیر ہوتی ہیں، جو اپنے مختلف اثرات کے ساتھ انسان پر اثر انداز ہوتی ہیں، بہت سے افراد ان کی تاب نہ لاکر ایمان و یقین کی دولت گنوا بیٹھتے ہیں، ایسا ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کا ایمان و اعتقاد برائے نام ہوتا ہے، اس میں پختگی اور مضبوطی نہیں ہوتی ہے، وہیں کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو ابتلا و آزمائش کی بھٹی میں تپتے ہیں اور استقامت و ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ کندن بن جاتے ہیں۔


انسان کے لیے ایک بڑی ابتلا و آزمائش شیطانی وسائس و تدابیر ہیں، جب یہ انسان پر اثر انداز ہوتی ہیں اس کا ایمان و یقین متزلزل ہونے لگتا ہے؛ بلکہ بعض ضعفاء ایمان کفر کے عمیق غار میں جا گرتے ہیں۔
اللہ تعالی نے شیطانوں کو یہ تصرف دیا ہے کہ وہ اپنے منصوبوں اور تدبیروں کو انسان پر اثر انداز کر سکیں؛ چناں چہ شیاطین ان کے ذریعے لوگوں کو اللہ کی یاد اور اس کے احکامات کی بجاآوری سے  غافل کر دیتے ہیں، اور ان کو نفس پرستی، دنیا طلبی، حرص و لالچ، غفلت و بدمستی اور معصیت و نافرمانی کا خوگر بنا دیتے ہیں۔

شیطان انسان کا ازلی اور کھلا ہوا دشمن ہے؛ لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے دشمن کو پہچانے، اس کے وسوسوں سے محفوظ و مامون رہنے کی کوشش کرے اور اس سے حق تعالی کی پناہ مانگے؛ چناں چہ انھیں امور کے پیشِ نظر یہ تحریر ”شیطان کے وسوسوں کا علاج؟“ کے عنوان پر لکھی گئی ہے، اور چند ہدایات ذکر کی گئی ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے شیطان کے وسوسوں سے نجات حاصل ہو سکتی ہے۔


شیطان کے وسوسوں سے کیسے بچیں؟

شیطان کے وسوسوں کا سامنا ہر مومن کو کرنا پڑتا ہے؛ کیوں کہ شیطان کو یہ قدرت و تصرف حاصل ہے کہ وہ جسے چاہے اپنے وسائس کے جال میں پھنسانے کی کوشش کرے۔ اس سے بچنے کا ایک موثر اور کارآمد طریقہ یہ ہے کہ ہم اس بات کو اپنے ذہن میں مستحضر رکھیں کہ شیطان ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے، جب یہ تصور ہمارے ذہنوں میں پیدا ہو جائےگا تو شیطان کے وسوسوں سے بچنا سہل ہو جائےگا؛ کیوں کہ انسان فطری طور پر اپنے دشمنوں سے بھاگتا اور بچنے کی کوشش کرتا ہے، وہ نہیں چاہتا ہے کہ دشمن اپنی سازشوں اور تدبیروں میں کامیاب ہو، جب یہ تصور ذہنوں میں راسخ ہو جائے تو مندرجہ ذیل ہدایات کو عمل جامہ پہنائیں۔


تعوذ کا کثرتِ اہتمام

(۱) کثرت سے تعوذ پڑھا کریں، یعنی ”أعوذ بالله من الشيطان الرجيم“ کا ورد ہر دم چلتے پھرتے کرتے رہا کریں، خصوصا جب شیطانی خیالات اور وسوسے ذہن میں ظہور پذیر ہوں تو لازمی طور پر تعوذ کا اہتمام کرنا چاہیے، اس کی تاثیر کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ خود اللہ تعالی نے بندوں کو شیطانی وسائس سے بچنے کے لیے اس کے پڑھنے کا حکم فرمایا ہے؛ چناں چہ ارشاد باری ہے:
 وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ. (سورۃ الاعراف)
ترجمہ: (اے مخاطب) اور اگر تجھے شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کر، بےشک وہ سننے والا جاننے والا ہے۔

تعوذ کے پڑھنے سے بندہ اللہ تعالی کے حفظ و امان میں آ جاتا ہے پھر شیطان اسے کسی قسم کا گزند پہنچانے پر قادر نہیں ہو پاتا۔
شیطان کے وسائس اور برے خیالات سے بچنے کا یہ ایسا نسخہ ہے جسے خود انسان و جنات کے خالق نے بیان فرمایا ہے؛ لہذا اس کی تاثیر میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔


نمازِ پنجگانہ کا خصوصی التزام 

(۲) شیطان کے وسوسوں سے بچنے کا ایک مؤثر عمل اول وقت میں باجماعت نماز کا اہتمام و التزام ہے، نماز کی اہمیت و تاثیر کسی سے مخفی نہیں، نماز بےشمار برائیوں سے روکتی ہے اور انسان کے دل و دماغ کو تقوی و طہارت سے منور کر دیتی ہے، جس کی وجہ سے شیطانی وسائس کا اثر اس پر نہیں ہوتا ہے۔
جب بندہ باجماعت نماز پڑھتا ہے تو شیطان اس پر قابو نہیں پا سکتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے ساتھ پڑھنے کے سلسلے میں غفلت و سستی برتنے والوں کو خبردار کیا ہے؛ چناں چہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد ہے:

مَا مِن ثَلاثَةٍ فِي قَرْيَةٍ وَلاَ بَدْوٍ لا تُقَامُ فِيهمُ الصَّلاةُ إِلاَّ قدِ اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ، فَعَلَيكُمْ بِالجَمَاعَةِ، فَإِنَّمَا يأْكُلُ الذِّئْبُ القَاصِيَةَ. (رواہ ابوداؤد)
ترجمہ: تین آدمی کسی بستی یا جنگل میں ہوں اور وہ جماعت سے نماز ادا نہ کریں تو ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے، پس تم لوگ جماعت کو لازم پکڑو؛ اس لیے کہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہو جاتی ہے۔

حدیث پاک سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان جب جماعت کے ساتھ رہتا ہے تو اس پر شیطان کے وسوسے اثر انداز نہیں ہوتے ہیں؛ لیکن اگر وہ جماعت سے علاحدہ ہو جائے تو شیطان بہ آسانی اس پر اپنا تسلط قائم کر لیتا ہے۔

تلاوتِ قرآن کا اہتمام

(۳) قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام شیطانی وسوسوں سے بچنے کا مؤثر ذریعہ ہے، خصوصا ان سورتوں کی تلاوت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ شیطان کے وسوسوں سے بچاتے ہیں، جیسے کہ سورہ  بقرہ کے شروع کی آیتیں، آیت الکرسی، اور تینوں قل وغیرہ۔ نیز صبح و شام کے اذکار اور دعاؤں کا بھی خاص اہتمام کرنا چاہیے۔
نیز ایسی کتابیں پڑھنی چاہیے یا ایسے بیانات سننے چاہیے جو نیک کاموں کی طرف راغب کرتے ہیں؛ کیوں کہ شیطان برے اعمال کی طرف رغبت دلاتا ہے؛ لہذا اس سے جب ہی بچا جا سکتا ہے جب دل و دماغ کی سمت کو نیک کاموں کی طرف موڑ دیا جائے۔

برے لوگوں اور بری جگہوں سے اجتناب

(۴) ایسے لوگوں کی صحبت نہیں اختیار کرنی چاہیے جو معصیت کی دعوت دیتے ہیں؛ کیوں کہ ایسے افراد انسان نما شیطان ہوتے ہیں یہ بعینہ شیطانوں والا کام کرتے ہیں، انسان پر اگر شیطانی وسوسے حاوی ہوں جو اسے گناہ پر آمادہ کر رہے ہوں اور اوپر سے لوگ بھی گناہوں کی طرف دعوت دینے لگ جائے تو پھر انسان کے لیے گناہوں سے بچنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے؛ لہذا شیطانی وسوسوں سے خود کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ایسے لوگوں کی صحبت اختیار نہ کریں جو بعینہ شیطانوں والا کام کرتے ہیں، نیز ایسے جگہوں پر جانے سے بھی گریز کریں جو معصیت کی آماجگاہ ہو اور وہاں جاتے ہی دماغ میں گناہوں کے خیالات آتے ہوں۔
بلکہ ہر اس چیز کو نگاہوں سے دور رکھیں جو معصیت کی دعوت دیتے ہوں، مثلا موبائیل فون پر ایسے مواد نہ دیکھیں جو گناہ پر ابھارتے ہوں۔ اگر اس چیز پر آپ قادر ہو جائیں اور نفس کو کنٹرول کرنا سیکھ جائیں تو شیطان کا کوئی بھی وار آپ پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔

قول و عمل میں اخلاص پیدا کرنا

(۵) جو لوگ اپنے اقوال و اعمال میں اخلاص و للہیت کا عنصر شامل کر لیتے ہیں ان پر شیطان کے حربے ناکام ہو جاتے ہیں؛ کیوں کہ اللہ کے مخلص بندوں پر شیطان کا کوئی زور نہیں چلتا ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے: 

قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ، إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ. (سورۃ الحجر)
ترجمہ: اس (شیطان) نے کہا اے میرے رب جیسے تونے مجھے گمراہ کیا ہے، میں ضرور بالضرور ان کے لیے زمین میں (برے کاموں کو) خوشنما بنا دوں گا، اور ضرور میں ان سب کو گمراہ کر دوں گا، سوائے تیرے ان بندوں کے جو ان میں سے مخلص ہوں گے۔

آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے انسانوں کو گمراہ کرنے کا عہد کر رکھا ہے؛ لیکن اس کا خود یہ اقرار بھی ہے کہ وہ مخلص بندوں کو گمراہی کے راستے پر نہیں چلا سکتا؛ لہذا اپنے ہر ہر عمل کو خواہ چھوٹا ہو یا بڑا نہایت اخلاص کے ساتھ انجام دینا چاہیے۔

اللہ کی اطاعت اور اس پر توکل کرنا

(۶) اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری اور اس پر توکل کرنا وغیرہ ایسے امور ہیں جو ایک مومن کا کامل اثاثہ ہیں، شیطان چاہتا ہے کہ وہ بندہ کو اللہ سے غافل کردے اور اس کا اللہ پر سے توکل ختم ہو جائے؛ لیکن جب بندۂ مومن مسلسل اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے تو شیطان پریشان ہو جاتا ہے اور انھیں ان امور سے سخت تکلیف ہوتی ہے؛ چناں چہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
 إِذَا قَرَأَ ابْنُ آدَمَ السَّجْدَةَ فَسَجَدَ اعْتَزَلَ الشَّيْطَانُ يَبْکِي يَقُولُ يَا وَيْلَهُ وَفِي رِوَايَةِ أَبِي کُرَيْبٍ يَا وَيْلِي أُمِرَ ابْنُ آدَمَ بِالسُّجُودِ فَسَجَدَ فَلَهُ الْجَنَّةُ وَأُمِرْتُ بِالسُّجُودِ فَأَبَيْتُ فَلِي النَّارُ. (رواہ مسلم)
ترجمہ: جب ابن آدم سجدہ والی آیت پڑھ کر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا اور ہائے افسوس کہتا ہوا اس سے علاحدہ ہو جاتا ہے اور کہتا ہے ابن آدم کو سجدہ کا حکم دیا گیا تو وہ سجدہ کرکے جنت کا مستحق ہو گیا اور مجھے سجدہ کا حکم دیا گیا تو میں سجدے کا انکار کرکے جہنم کا مستحق ہو گیا۔

معلوم ہوا کہ بندہ جب نیک امور کو انجام دیتا ہے تو شیطان پر یہ گراں گزرتا ہے، اور اسے اپنی ناکامی کا احساس ہوتا ہے؛ لہذا وہ بندے سے ناامید ہوکر الگ ہو جاتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے