جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت
قرآن کریم سرچشمۂ رشد و ہدایت اور باعثِ خیر و سعادت ہے، یہی کتاب ضامنِ فلاح و کامرانی اور علاجِ امراضِ روحانی ہے، اس کی تلاوت و قرأت؛ غرض اس سے متعلق ہر عمل بے شمار فضائل و برکات کا حامل ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے کہ دنیا کے گوشے گوشے میں مسلمان بصد شوق عبادت سمجھ کر اس کی تلاوت کرتے ہیں۔
یوں تو قرآنِ کریم کا پڑھنا بے شمار اجر و ثواب اور دنیوی و اخری سعادتوں کی ضامن ہے؛ تاہم اس کی کچھ مخصوص سورتوں کی مخصوص اوقات میں تلاوت کا اہتمام اجر و ثواب میں اضافہ کر دیتا ہے اورانسان اضافی فضائل و برکات سے بہرہ یاب ہوتا ہے، بہت سی احادیثِ مبارکہ میں مختلف سورتوں کی مختلف خصوصیات و فضائل بیان کی گئ ہیں، ان ہی میں سے ایک سورۂ کہف ہے، اس کے متعلق بھی زبانِ رسالت سے کئی ارشاد وارد ہوئے ہیں جس سے اس مبارک سورہ کی عظیم فضیلتوں کا پتہ چلتا ہے۔
نور روشن ہونا
پیغمبرِ اسلام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن سورۂِ کہف کی تلاوت کے اہتمام کی تلقین فرمائی ہے؛ چناں چہ ایک موقع پر فرمایا:
مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ فِي يَوْمِ الجُمُعَةِ أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ مَا بَيْنَ الجُمُعَتَيْنِ. (رواه الحاكم والبيهقي)
ترجمہ: جس نے جمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھی اس کے لیے دو جمعوں کے درمیان نور روشن ہو جاتا ہے۔
یعنی اسے ایک ایسا معنوی اور غیر حسی نور حاصل ہوتا ہے جو اسے معاصی و ذنوب سے بچاتا ہے اور طاعت و فرمانبرداری کی راہ دکھاتا ہے، یہ غیر معنوی نور آخرت میں حسی ہو جائےگا اور اس کے پورے وجود کو ٹھانپ لےگا اور دنیا میں بھی اسے بصیرت و دانائی اور فہم و فراست کا نور حاصل ہوتا ہے؛ بلکہ اس نور کا اثر اس کے چہرے سے ہویدا ہوتا ہے۔
حدیث پاک کا مقصد مومنوں کو اس مبارک عمل کی طرف ترغیب و تحریص اور تشویق و تحریک ہے؛ تاکہ وہ اس کے فضائل سے بہرہ مند ہو سکے۔
نزولِ سکینہ
حضرت برا ابن عازب رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابیِ رسول (رضی اللہ عنہ) سورہ کہف کی تلاوت میں مگن تھے، گھر میں ایک گھوڑا بندھا ہوا تھا، اچانک وہ بدکنے لگا، صحابی گھبرا گئے اور انھیں اندیشہ ہونے لگا کہ گھوڑا کہیں نقصان نہ پہنچا دے، اس نے دیکھا کہ ایک بادل کا ٹکڑا اس کو ڈھانپا ہوا ہے۔ صحابی رسول نے یہ حیرت انگیز واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا تو آپ نے ارشاد فرمایا:
اقْرَأْ فُلَانُ فَإِنَّهَا السَّکِينَةُ تَنَزَّلَتْ عِنْدَ الْقُرْآنِ أَوْ تَنَزَّلَتْ لِلْقُرْآنِ. (صحیح مسلم)
ترجمہ: اے فلاں! قرآن پڑھو؛ کیوں کہ یہ سکینہ ہے جو قرآن کی تلاوت کے وقت نازل ہوتی ہے، اور جب بندہ نہایت استغراق، حضور قلبی اور خوش الحانی کے ساتھ تلاوت کرتا ہے تو فرشتے بھی سننے کے لیے پروانہ وار وارد ہونے لگتے ہیں۔
فتنۂ دجال سے حفاظت
دجال کا فتنہ تاریخِ انسانی کا سب سے بڑا فتنہ ہونے والا ہے، دنیا میں جتنے بھی انبیا (علیہم السلام) گزرے ہیں سبھوں نے اپنی امت کو اس خطرناک فتنے سے آگاہ اور خبردار کیا ہے؛ چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کو اس فتنے سے ڈرایا ہے اور اس سے محفوظ رہنے کا نسخہ بھی بیان فرما دیا ہے؛ چناں چہ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ الْکَهْف عُصِمَ مِنْ الدَّجَّالِ. (صحیح مسلم)
ترجمہ: جس نے سورہ کہف کے شروع کی دس آیتیں یاد کر لیں وہ فتنۂ دجال سے محفوظ رہےگا۔
علما کرام نے بیان کیا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ پوری سورہ حفظ کر لی جائے، اگر یہ شاق معلوم ہو تو شروع کی دس آیتیں اور آخر کی دس آیتیں حفظ کر لی جائیں اور ان کی تلاوت کا خاص اہتمام کیا جائے۔
جمعہ کے دن سورہ کہف کب پڑھے؟
جمعہ کے پورے دن اور رات میں کبھی بھی سورہ کہف پڑھی جا سکتی ہے اس کی کوئی تحدید و تعیین نہیں ہے؛ بلکہ جب بھی موقع ملے اور جہاں ملے پڑھ لے؛ خواہ مسجد میں ہو یا راستے میں یا گھر میں یا کسی اور مقام پر، نمازِ جمعہ کے بعد بھی سورہ کہف پڑھی جا سکتی ہے؛ تاہم بہتر یہ ہے کہ قبل از جمعہ پڑھ لیا جائے۔
جمعہ کا وقت جمعرات کے غروبِ شمس کے بعد شروع ہو جاتا ہے اور جمعہ کے غروب شمس سے قبل تک رہتا ہے، بعض علما نے کہا ہے کہ شبِ جمعہ کو یعنی جمعرات کے سورج غروب ہونے کے بعد پڑھ لینا مستحب ہے۔
0 تبصرے
تبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!