Header Ads Widget

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امی کیوں رہے؟

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امّی کیوں رہے؟


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُمی کیوں رہے؟



معلمِ انسانیت سرورِ دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پوری انسانیت کے لیے ایک مثالی معلم اور مربی کا درجہ رکھتی ہے، آپ کی تعلیم و تربیت کے زیرِ اثر محض تیئس سال کے قلیل عرصے میں جہالت زدگانِ عرب جو وحشت و بربریت اور ظلم و تعدی کی جولان گاہ میں بھٹکتے پھر رہے تھے تہذیب و شائستگی اور عدل و مساوات کا پیکر بن گئے، جن دلوں میں جہالت کی مہیب تاریکی چھائی ہوئی تھی علم و معرفت اور حکمت و دانائی کے چراغ روشن ہو گئے، جو قوم کشت و خون اور قتل و غارت گری کی دلدادہ تھی، امن و آشتی اور الفت و محبت کی شیدائی بن گئی، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیرت انگیز تعلیم و تربیت کی کرشمہ سازی تھی کہ ایک قلیل عرصے میں ایسا انقلاب پیدا ہوا جنھیں دیکھ کر آپ کے مخالفین و معاندین بھی دم بخود اور انگشت بدنداں رہ گئے، یہی نہیں کہ آپ کی تعلیمات کا اثر محض آپ کی زندگی تک محدود رہا؛ بلکہ اس کا اثر اس قدر عام ہوا کہ آج بھی لوگ آپ ہی کی تعلیمات سے رہ یاب ہوتے ہیں اور تا قیامت لوگ آپ کی تعلیمات سے مستفید ہوتے رہیں گے۔
ذرا ٹھہر کر سوچیے کہ جس ذات کی تعلیم و تربیت کی اثر انگیزی اور ہمہ گیری اس قدر تعجب خیز اور حیرت آفریں تھی خود اس کے علمی مقام و مرتبے کا کیا عالم ہوگا؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علمی مقام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں آپ علم کے بحرِ بےکراں ہیں آپ کا علم اس قدر وسیع ہے کہ کوئی بھی مخلوق اس کا احاطہ کر نہیں کر سکتی اور نہ ہی تمام مخلوقات مل کر اس علمی مقام تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں؛ چناں چہ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد وارد ہے: وأنزل الله عليك الكتاب والحكمة وعلمك مالم تكن تعلم.
ترجمہ: اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور آپ کو سکھایا جو آپ نہیں جانتے تھے۔
جس ذات کا معلم و استاذ خود اللہ تعالی ہو بشر کی کیا تاب کہ اس کی علمی شان کا اندازہ لگائے۔
آپ کی علمی وسعت کا اندازہ صحیح بخاری کی اس روایت سے لگائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:
من أحب أن يسأل عن شيئ، فليسأل عنه، فالله لاتسألوني عن شيئ إلا أخبرتكم به ما دمت في مقامي هذا. (صحيح مسلم)
ترجمہ: تم میں سے جو کسی چیز کی بابت سوال کرنا چاہتا ہے وہ اس کی بابت سوال کر لے؛ کیوں کہ قسم بخدا آج تم چیز کے متعلق بھی سوال کروگے میں اس کا جواب دوں گا جب تک میں اپنی جگہ پر ہوں۔
یقینا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مخلوقات میں سب سے زیادہ علم والے تھے
  اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے امی کے لقب سے خطاب فرمایا، اب سوال پیدا ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم امی کیوں رہے، امی کا معنی و مفہوم کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امی رہنے کے پسِ پردہ رب کی کیسی مصالح پوشیدہ تھیں؟ اس تحریر سے ذریعے ہم اسی چیز کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔


یہاں پر یہ جان لینا ناگزیر ہے کہ امی ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لکھنا پڑھنا نہ جاننا آپ کے حق میں مذموم نہیں جیسا کہ بعض لوگوں کو شبہ ہوتا ہے؛ کیوں کہ لکھنا پرھنا جاننا اور نہ جاننا کسی کی علمی حیثیت کا معیار نہیں ہے لکھنا پڑھنا محض حصولِ علم کے وسائل و ذرائع اور فن ہیں نہ کہ عینِ علم ہیں اور نبوت اپنے مقام و مرتبے اور اپنی حیثیت میں کسی فن کی محتاج نہیں ہے، امی ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی من جملہ صفاتِ محمودہ میں سے ایک صفت ہے۔


لفظ ”اُمی“ کا معنی و مفہوم

آپ صلی اللہ علیہ وسلم امی کیوں تھے اس کو سمجھنے کے لیے اولا امی کا معنی اور مفہوم سمجھنا ضروری ہے؛ تاکہ اس کا صحیح مفہوم ہمارے ذہنوں میں آ جائے اور ہم پوری بات سمجھ سکیں۔
”أمي“ عربی زبان کا لفظ ہے جو ”أم“ سے نکلا ہے، جس معنی اصل کے آتے ہیں، اور ایک معنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ امی کا مطلب یہ ہے وہ انسان اپنی اصل یعنی اپنی جبلت پر باقی رہے یعنی پیدائشی طور پر وہ جیسا تھا ویسا رہے یعنی لکھنے پڑھنے والا نہ ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو امی کے ساتھ اس لیے منسوب کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، یا ام القری یعنی مکہ مکرمہ کی جانب نسبت کرتے ہوئے آپ کو امی کہا گیا۔
(لسان العرب، تاج العروس)


قرآن میں لفظ ”اُمی“ کا استعمال

اب یہ بھی جان لیا جائے کہ قرآن کریم میں امی کا استعمال کن معنوں میں ہوا ہے۔
قرآن کریم میں لفظ امی کا استعمال تین طریقوں پر ہوا ہے۔
۱. ان میں سے پہلا یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اہلِ عرب کے لیے لفظِ امی کا استعمال فرمایا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری ہے: 
هو الذي بعث في الإميين رسولا منهم.
 وہ وہی ہے جس نے امیوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا۔
۲. یہود کے لیے اللہ تعالی نے امی کا لفظ استعمال فرمایا ہے جو تورات کا علم نہیں رکھتے تھے؛ چناں چہ فرمانِ باری تعالی ہے: 
ومنهم أميون لايعلمون الكتاب.
اور ان میں ایسے امی ہیں جو کتاب (تورات) کا علم نہیں رکھتے۔

۳. اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے لیے امی کا لفظ استعمال فرمایا ہے؛ کیوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اور تمام معجزات میں سے ایک معجزہ ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
الذين يتبعون الرسول النبي الأمي.
 
اس کے علاوہ اور بھی آیات ہیں جن میں اس بات کی صراحت آئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امی کیوں رہے؟

اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امی کیوں رہے، اس کی کیا حکمت ہے؟
علمائے اسلام نے قرآن و حدیث میں غور و تدبر سے کام لیتے ہوئے ان حکمتوں کو جاننے کی کوشش کی ہے، جن میں چند کو ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے:

۱. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امی رہنے کے پسِ پردہ ایک حکمت یہ سمجھ آتی ہے کہ یہود کی کتابوں میں آخری نبی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بیان کی گئی تھی کہ وہ امی ہوں گے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم امی نہ ہوتے تو یہود کو ایمان نہ لانے کا ایک بہانہ مل جاتا مل جاتا یا وہ شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے؛ چناں چہ اللہ تعالی نے ان شکوک کا سدِ باب کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امی رکھا۔




۲. اس بات میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری دنیا کو علم و ادب کی روشنی سے منور کیا اور دنیا کو تہذیب و شائستگی، الفت ومحبت اور عدل و انصاف کا درس دیا، یہ فخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے، اب اگر آپ کسی انسان سے علم و ادب سیکھتے تو وہ ان انقلابی اور لائقِ فخر کارنامے کو اپنی جانب منسوب کر سکتا تھا اور کہہ سکتا تھا کہ یہ ساری چیزیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو میں سکھائی ہیں؛ چناں چہ اس چیز کا کوئی شائبہ باقی نہ رہے اس وجہ سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے امی رکھا۔



۳. اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیاوی رسم کے مطابق کسی استاذ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر کرکے علم حاصل کرتے تو یقینا لوگوں میں یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ فلاں شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بڑا عالم ہوگا؛ کیوں وہ آپ کے استاذ ہیں؛ جب کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ علم والا ہونا ظاہر ہے۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امی رہنے کی ایک حکمت اس خیال فاسد کو پیدا ہونے سے روکنا بھی تھا۔


۴. ایک بڑی حکمت جو سمجھ میں آتی ہے جسے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بھی بیان فرمایا ہے یہ ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا پڑھنا جانتے تو لوگوں کے دلوں میں قرآن کریم کے تئیں یہ گمان پیدا ہو سکتا تھا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہوا کلام ہے، قرآن کے کلام اللہ ہونے میں کوئی شک پیدا نہ ہو اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قدرت نے لکھنے پڑھنے کا انتظام نہیں کیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم امی رہے تو آپ ایسا معجز کلام اپنی طرف سے کیسے پیش کر سکتے تھے، اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ قرآن کریم یقینا اللہ تعالی کی کتاب ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے:
وما كنت تتلوا من قبله من كتاب و لا تخطه بيمينك إذا لارتاب المبطلون.
 ترجمہ: اور آپ اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ ضرور شک لاتے۔

اس آیت سے وہ اعتراض بھی رفع ہو گیا جو بعض لوگ کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کردہ تعلیمات گذشتہ کتابوں سے اخذ شدہ ہیں (العیاذ باللہ)؛ کیوں کہ جب آپ کا لکھنا پڑھنا نہ جاننا ظاہر ہو گیا تو یہ کیسے ممکن ہوگا کہ آپ نے جو تعلیمات انسانوں کو دی ہیں وہ گذشتہ کتابوں کو پڑھ کر دی ہیں۔



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے