Header Ads Widget

زمزم کے کنویں کی کھدائی کس نے کی تھی؟| بئرِ زمزم کی تاریخ

زمزم کے کنویں کی کھدائی کی تاریخ

آب زمزم کی تاریخ


بئر زمزم (زمزم کا کنواں) اللہ تعالی کی قدرت کا ایسا عظیم شاہکار ہے جس کے حقائق نے انسانوں کو حیرت و استعجاب میں ڈال رکھا ہے۔
 ہزاروں سال قبل مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں پانی کا یہ حیرت انگیز چشمہ پھوٹا جس سے پوری دنیا سیرابی حاصل کرتی رہی؛ تاہم  اس کی سخاوت و فیاضی میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی، آج بھی تشنگان جوق در جوق پروانہ وار آتے ہیں، سیراب ہوتے ہیں اور اپنے متعلقین کے واسطے بطورِ تحفہ لے جاتے ہیں۔

خیر مجھے اس کی فضلیت و اہمیت بیان کرنی ہے اور نہ ہی اس کے حیرت انگیز پہلوؤں سے پردہ اٹھانا ہے کہ اس پر بہت کچھ لکھا، پڑھا، دیکھا اور سنا جا چکا ہے۔

میری غرضِ تحریر فقط تاریخِ زمزم کے اس عظیم کردار کی یاد دہانی ہے، جس نے زم زم کا کنواں پہلی بار کھودا تھا۔
ہم تاریخ کے اس باب کو تو جانتے ہیں جس میں اس چشمہ کے ظہور پذیر ہونے کا تذکرہ ہے کہ سیدنا ابراہیم جس وقت حکمِ الہی کی تعمیل میں اپنے لخت جگر نور نظر اسماعیل اور شریکِ حیات ہاجرہ کو وادی غیر ذی زرع میں چھوڑ اللہ کے حوالے کر آئے، اور معمولی خوراک اور پانی جو ہمراہ لائے تھے ختم ہو گیا اور ننہا اسماعیل پیاس کی شدت کی تاب نہ لاکر تڑپنے لگا اور اپنی نازک ایڑیاں زمین پر رگڑنے لگا تو شفقتِ مادری جوش میں آئی، بچے کا رونا بلکنا دیکھ تلاشِ آب میں بےقرار و بےچین ہوکر صفا مروہ نامی پہاڑیوں کے درمیان دوڑنے لگی، کہ یکایک جبریل امین بحکمِ الہی جلوہ گر ہوئے اور اپنے پاؤں کو زمین پر دے مارا جس کی وجہ سے پانی کا چشمہ پھوٹا اور اسماعیل و ہاجرہ اس سے سیراب ہوئے اور یہی چشمہ زمزم سے موسوم ہوا۔
لیکن بہت سے افراد بئرِ زمزم کی تاریخ کے اس پہلو سے نا آشنا ہیں کہ زمزم کا کنواں حوادثِ زمانہ کی زد میں آکر بے نام و نشان ہوکر رہ گیا تھا، پھر اللہ تعالی نے ایک شخص کے ذریعے اس کی بازیابی فرمائی۔
بئرِ زمزم کا نشان کیسے مٹا تھا اور پھر دوبارہ کیسے ظاہر ہوا؟
جاننے کے لیے تحریر مکمل پڑھیں!




زمزم کے کنویں کی گم شدگی 


قبیلۂ جرہم یمن کا ایک قبیلہ تھا، جب یمن میں قحط پڑ گیا اور قحط زدگان اشیائے خورد و نوش کی تلاش میں سرگرداں ہوئے اور مختلف امصار و مدن کی جانب تلاشِ معاش کی خاطر اسفار کرنے لگے تو دورانِ سفر مکہ مکرمہ میں چاہ زم زم کے قریب حضرت ہاجرہ اور اسماعیل علیہما السلام سے ان کی ملاقات ہوئی، بنو جرہم کو یہاں کا ماحول بڑا سازگار اور خوشنما معلوم ہوا؛ چناں چہ انھوں نے یہیں پر اپنا رختِ سفر ڈال دیا اور توطن پذیر ہو گئے، حضرت اسماعیل علیہ السلام کا نکاح بھی اسی قبیلے میں ہوا،  حضرت اسماعیل علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے قیدار کو حسبِ وصیت خانۂ کعبہ کا متولی بنایا گیا، پھر نسل در نسل خانۂ کعبہ کی حفاظت و انصرام کی زمام بنی اسماعیل کو ملتی رہی، مرورِ زمانہ کے بعد بنی اسماعیل اور بنی جرہم کے درمیان منازعت و مخاصمت کی نوبت آئی اور بنو جرہم بنو اسماعیل پر غلبہ پا گئے اور یوں انھوں نے مکہ میں اپنی حکومت کا جھنڈا نصب کر دیا، رفتہ رفتہ بنو جرہم کے حکام ظلم و تشدد میں مبتلا ہو گئے ان کا جور و ستم اس قدر بڑھا کہ بنو اسماعیل مجبورا مکہ کے گرد و نواح میں قیام پذیر ہو گئے، جب بنو جرہم فسق و فجور اور ظلم و زیادتی میں انتہا کو پہنچ گئے اور کعبۃ اللہ کی بے حرمتی کرنے لگے تو عرب کے دیگر قبائل ان کے خلاف کھڑے ہو گئے، آخر کار انھیں مکہ چھوڑ کر جانا پڑا، جاتے ہوئے انھوں خانۂ کعبہ کی چیزوں کو زم زم کے کنویں میں ڈال کر اوپر سے اس طرح پاٹ دیا کہ وہ زمین کے بالکل ہموار ہو گیا، اور زم زم کا نشان مٹ گیا۔




عبدالمطلب کا خواب اور زمزم کی کھدائی

بنو جرہم کی جلا وطنی کے بعد بنو اسماعیل واپس مکہ میں اقامت پذیر ہو گئے مگر چاہ زم زم کی طرف کسی کی توجہ نہیں گئی۔
مرور زمانہ کے بعد جب مکہ کی سرداری اور حکومت عبدالمطلب کے دست قدرت میں آئی تو مشیت ایزدی اس جانب متوجہ ہوئی کہ طویل زمانہ سے بند و بے نشان پڑے چاہِ زم زم کو ظاہر کیا جائے؛ چناں چہ عبدالمطلب کو خواب میں چاہِ زم زم کے کھودنے کا حکم دیا گیا اور اس جگہ کی علامات و نشانات کو خواب میں بتلایا گیا؛ چناں چہ عبدالمطلب خود بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حطیم میں محوِ خواب تھا کہ کوئی آنے والا آیا اور خواب میں کہنے لگا:
احْفِرْ بَرَّةَ“ یعنی برہ کو کھودو!
میں نے دریافت کیا: ”وَمَا بَرَّةَ“ برہ کیا ہے؟
وہ شخص جواب دیے بغیر چلا گیا۔
اگلے روز پھر اسی مقام پر سو رہا تھا کہ پھر وہی شخص خواب میں ظاہر ہوا اور کہنے لگا:
احْفِر الْمَضْنُوْنَةَ“ مضنونہ کو کھودو!
میں نے پوچھا:
ومَا الْمَضْنُوْنَةَ“ مضمونہ کیا چیز ہے؟
حسبِ سابق وہ شخص بغیر جواب دیے چلا گیا۔
تیسرے روز پھر وہ شخص خواب میں ظاہر ہوا اور کہنے لگا:
احْفِرْ طيبة“ طیبہ کو کھودو!
میں نے پوچھا:
وما طيبة“ طیبہ کیا چیز ہے؟
وہ شخص جواب دیے بغیر چل دیا۔
چوتھے روز وہ شخص پھر خواب میں ظاہر ہوا اور کہا:
احفر زمزم“ زم زم کو کھودو!
میں نے پوچھا
 ”وما زمزم“ زم زم کیا ہے؟
اس شخص نے جواب دیا:
لاَ تَنْزِفُ أَبَداً ولا تُذَمُّ تَسْقِي الحجيج الأعظم
یعنی وہ ایسا کنواں ہے جس کا پانی نہ کبھی ٹوٹتا ہے اور نہ ہی کم ہوتا ہے اور بےشمار حاجیوں کو سیراب کرتا ہے۔
ساتھ ساتھ اس کی کچھ علامتیں اور نشانیاں بھی بیان کر دیں۔

عبدالمطلب سمجھ گئے کہ یہ ایک سچا خواب ہے؛ چناں چہ وہ اس مقام کو کھودنے پر آمادہ ہوئے اور قریش کے سامنے اپنا خواب بیان کیا؛ لیکن قریش نے ان کی تائید نہ کی اور مخالفت پر اتر آئے، عبدالمطلب ان کی مخالفتوں سے بے پروا ہوکر کدال اور پھاوڑا اٹھائے اس جگہ کو کھودنے کے لیے چل دیے اور اپنے ہمراہ اپنے بیٹے حارث کو بھی لے گئے، خواب میں بیان کردہ نشانات کے مطابق انھوں نے کھودنا شروع کیا عبدالمطلب کھودتے جاتے اور ان کے بیٹے حارث مٹی اٹھاکر پھینکتے جاتے، تین روز کے بعد ایک من ظاہر ہوئی عبدالمطلب نے جب یہ دیکھا تو خوشی کے مارے زور سے ”اللہ اکبر“ کا زمرمہ بلند کیا اور کہا:
”هذا طوى إسمعيل“ یہی اسماعیل علیہ السلام کا کنواں ہے۔


اس کے بعد عبدالمطلب نے اس کے گرد چند حوض تیار کیے جن میں آبِ زمزم کو جمع کرتے اور حجاج کرام کو سیراب کرتے، عبدالمطلب کے کچھ شریر و بدمعاش قسم کے حاسدین کو شرارت سوجھی تو انھوں نے رات کے وقت حوض کو تہس نہس اور خراب کرنا شروع کر دیا، عبدالمطلب صبح کو چاہِ زمزم کے پاس آتے تو دیکھتے کہ سارے حوض خراب ہو چکے ہیں؛ چناں چہ وہ ان کو درست کرنے میں لگ جاتے، جب حاسدین مسلسل بدمعاشی کرتے رہے تو بالآخر عبدالمطلب نے عاجز آکر اللہ تعالی سے یہ دعا کی:
اللهم إني لاَ أَحِلُّهَا لِمُغْتَسِلٍ ولٰكِنْ هِيَ لِشَارِبً حِلٌّ
یعنی اے اللہ! میں غسل کرنے والوں کو اس متبرک پانی کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا ہوں؛ لیکن پینے والوں کے لیے اجازت ہے۔

عبدالمطلب نے صبح اٹھ کر اس کا اعلان کر دیا، کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد جس نے بھی حوض کو خراب کرنے کی کوشش کی وہ ضرور کسی مرض میں مبتلا ہوا، جب لوگوں کے بیمار ہونے کے واقعات کثرت سے ظہور پذیر ہونے لگے تو حاسدین مارے خوف کے حوض کو خراب کرنے سے باز آگئے۔

نوٹ: مذکورہ بالا تفصیل الفاظ کے رد و بدل کے ساتھ ”سیرۃ المصطفی مصنفہ مولانا ادریس کاندھلوی“ سے نقل کی گئی ہے۔






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے