کم بولنے اور خاموش رہنے کی کی عادت کیسے ڈالیں؟
قوت گویائی ایک عطیۂ خداوندی ہے، اس کے ذریعے انسان اپنے خیالات و افکار کو اظہار کا جامہ پہناتا ہے، اپنے تجربات و مشاہدات اور محسوسات سے دوسروں کو آگاہ کرتا ہے، غرض قوت گویائی اللہ کی ایک عظیم الشان نعمت ہے اورنعمت الہیہ کی بابت اصول یہ ہے کہ اس کے بےجا اور لایعنی استعمال سے گریز کیا جائے۔
چناں چہ اس نعمت کو بھی جائز اور درست طریقے سے استعمال کیا جانا چاہیے، اس کے بےجا اور غلط استعمال سے جہاں اللہ کی ایک عظیم نعمت کا بےجا تصرف ہوتا ہے وہیں وہ انسان کی ندامت و شرمندگی اور ذلت کا باعث بھی بن جاتا ہے؛ چناں چہ عام مشاہدہ ہے کہ معاشرے میں اخلاقی لحاظ سے اس انسان کو نہایت سطحی تصور کیا جاتا ہے جو لغو و لایعنی اور بےجا گفتگو کا عادی ہو، اور اس انسان کو بااخلاق گردانا جاتا ہے جو کم گو اور خاموشی کا خوگر ہو۔
کوئی شک نہیں کہ کم گوئی اور خاموشی ایک دانا، فہیم، باشعور اور دانشمند انسان کی امتیازی صفت ہے، نیز کم گو انسان فقط اپنی اس خاصیت کی بنا پر ایسے بہت سے معاصی و ذنوب کے ارتکاب سے محفوظ رہتا ہے جس میں اکثر کثیر و فضول گو انسان ملوث ہو جاتا ہے؛ لہذا اپنی شخصیت کو سنوارنے اور ایک صالح معاشرے کی تشکیل کے لیے ہر شخص کو اپنے اندر کم گوئی اور خاموشی کی صفت پیدا کر لینی چاہیے۔
یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ لوگ تو اکثر خاموش رہنے اور کم بولنے کی تلقین تو کرتے ہیں؛ لیکن ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کے کیا طریقۂ کار ہیں ان کے متعلق کوئی بات نہیں کرتا، آخر وہ کیا اسباب ہیں جن کو اپنا کر انسان ان اخلاقی صفات سے متصف ہو سکتا ہے، وہ اسباب کیا ہیں جن کو اختیار کرکے انسان کم بولنے اور خاموش رہنے کی صفت کے ساتھ متصف ہو سکتا ہے؟
چناں چہ اسی کے پیش نظر ذیل میں چند تجاویز پیش کی گئی ہیں جن کے پاس و لحاظ سے ان صفات کو اپنے اندر پیدا کیا جا سکتا ہے۔
کثرتِ مطالعہ
جو انسان زیادہ بولنے کا عادی ہوتا ہے ضرور اس کی ذات میں ایسے معائب و نقائص ہوتے ہیں جن کی پردہ پوشی کے لیے وہ زیادہ بولتا ہے؛ تاکہ لوگوں پر اس کے علم کا رعب و دبدبہ قائم ہو؛ چناں چہ ان معائب و نقائص سے چھٹکارا اسی وقت حاصل ہوگا جب کتابوں کے مطالعہ کی عادت ڈال لی جائے کہ مطالعہ سے خیالات روشن ہوتے ہیں، فکر و تدبر کی صلاحیت بیدار ہوتی ہے، عقل کو جلا ملتی ہے اور ان سب کے علاوہ انسان خود اعتمادی کی دولت سے بہرہ یاب ہوتا ہے، اور یہی خود اعتمادی انسان کے اندر کم گوئی کی صفت پیدا کرتی ہے؛ کیوں کہ اسے اپنی ذات پر کامل وثوق اور اعتماد حاصل ہوتا ہے اور وہ دوسروں کو اپنے افکار و نظریات کا قائل کرنے اور لوگوں پر دھاک جمانے کی بے جا کوششوں میں وقت ضائع نہیں کرتا۔
غور سے سننے اور دوسروں سے استفادہ کی عادت
اور یہ اسی وقت ہوگا جب کم بولا جائے؛ ورنہ کثرت کلام سے سامنے والے کو بولنے کا موقع میسر نہیں ہوگا جس کی وجہ سے ان کے علم کے استفادہ سے محرومی ہوگی۔
اور اگر کوئی سوال کرے تو اولا اس کو بغور سنا جائے؛ ایسا کرنے سے سامنے والے کو احساس ہوگا کہ اس کی بات کو اہمیت دی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں وہ آپ کی بات کو بھی اہمیت دےگا اور بغور سنےگا، اور کسی کے جواب میں اتنا ہی کلام کیا جائے جس سے مخاطب کو اس کا جواب حاصل ہو جائے، اس سے دوسروں کی شخصیت کا علم ہوگا اور معلوم ہوگا کہ مخاطب کا انداز کلام کیسا ہے اور اس کے فکر و تدبر کا معیار کیا ہے۔
تعلیم یافتہ لوگوں کی صحبت
علما و صلحا اور تعلیم یافتہ لوگوں کی مجالس میں بیٹھنے سے جہاں بےشمار فوائد ہیں وہیں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ان کے آپس میں بات کرنے کا طریقہ معلوم ہوگا؛ کیوں کہ ایسی مجالس میں لغو اور لایعنی کلام نہیں ہوتے ہیں، جس کا اثر لامحالہ انسان کی ذات پر پڑےگا اور اس کے اندر بھی لایعنی اور لغو کلام سے اجتناب کرنے کی صفت پیدا ہوگی، اور ایسے مجالس و محافل سے دوری بنائے رکھیں جہاں فضول اور بےمقصد موضوعات کے گرد کلام ہوتا ہے۔
کثرت سوال سے اجتناب
جو شخص بات بات پر سوال کرنے کا عادی ہوتا ہے لوگ اس سے کو ناپسند کرنا شروع کر دیتے ہیں، اگر آپ کے ذہن میں کسی موضوع کی بابت کوئی سوال کھٹک رہا ہے تو اول از خود اس سوال کو حل کرنے کی کوشش کی جائے، اس کے لیے اپنی عقل کا استعمال کیا جائے کتابوں کا مطالعہ کیا جائے، الغرض جو بھی تدابیر بن پڑتے ہوں انھیں اپنانا چاہیے، اس بعد بھی اگر وہ سوال حل نہ ہو نہایت ادب و احترام کے ساتھ سوال کرنا چاہیے، اس سے مخاطب آپ کے سوال کو اہمیت دےگا۔
کسی کو پریشان کرنے کی غرض سے مسلسل سوال کرنا نہایت بےہودہ حرکت ہے؛ لہذا اس سے اجتناب کیا کرنا چاہیے۔
اشارات و کنایات کا استعمال
انسان کے اعضا و جوارح بھی مختلف زبان بولتے ہیں ہیں، یعنی اشارات و کنایات کے ذریعے بھی کافی حد اپنی مافی الضمیر کو ادا کیا جا سکتا ہے، انسان کے چہرے، اس کی آنکھوں اور اس کے اعضا سے مختلف تاثرات ظاہر ہوتے ہیں؛ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی بڑی بڑی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے تو ہم سمجھ جاتے ہیں وہ شخص غضبناک ہے، کوئی مسکرا دے تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ وہ خوش ہے، غرض کہ اشاروں اشاروں میں بھی کافی باتیں ہو سکتی ہیں، نیز تکلم کے دوران اعضا و جوارح کی صحیح حرکت بھی سامع پر خاص اثر ڈالتی ہے؛ لہذا اس عادت کو بھی اپنانا چاہیے۔
لیکن جہاں فقط اشارے سے کام نہ سکے چل سکے وہاں اشارے پر اکتفا کرنا اور کچھ نہ بولنا بھی حماقت ہے؛ لہذا اس کا بھی خاص خیال رکھا ہے۔
ان سب کے علاوہ اور بھی اسباب ہیں جنھیں آئندہ زیر تحریر لایا جائےگا۔
1 تبصرے
بہت خوب
جواب دیںحذف کریںتبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!