Header Ads Widget

پچھلے زمانے میں محدثین کرام کا حافظہ اس قدر قوی کیوں ہوتا تھا؟

 محدثین کرام کے حافظہ کی قوت کا راز


کبھی آپ نے سوچا ہے کہ گذشتہ دور میں محدثین کرام کو ہزاروں نہیں؛بلکہ لاکھوں رواۃ کے احوال کیسے یاد رہ جاتے تھے؟
ممکن ہے آپ کہیں کہ ان کا قوت حافظہ انتہائی قوی تھا، ٹھیک ہے یہ بات تسلیم کر لی جاتی ہے کہ اس زمانے میں عمومی طور پر لوگوں کا قوت حافظہ انتہائی مضبوط ہوتا تھا؛ لیکن پھر یہ سوال ہوگا کہ آخر تمام لوگوں کا حافظہ اس قدر قوی تو نہیں ہوگا، کچھ ایسے بھی ہوں گے جن کی یادداشت کی قوت زیادہ نہ ہو۔
اور ہم جب اس دور کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ تمام محدثین کرام ایسے ہیں جنھیں ہزاروں اور لاکھوں راویوں کے احوال ازبر ہیں، آخر اس  کارنامے کا راز کیا ہے؟
اسی متعلق ہم کچھ عرض کریں گے۔

در اصل اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ دور علمی دور تھا اور ہر آن علمی مجلسیں اور محفلیں جمی رہتی تھیں، اور ان مجلسوں میں علمِ حدیث ،اسمائے رجال یعنی راویوں کے احوال سے بحث کی جاتی تھی، اور ہر وقت ان ہی موضوعات پر ان کا مذاکرہ ہوا کرتا تھا، اور راویوں کے احوال و واقعات کا اس قدر مکرر تذکرہ ہوتا تھا کہ ہر کسی کو سن سن کر یاد ہو جاتا تھا، یہی وجہ ہے کہ محدثین کرام کو اسمائے رجال کی کتابوں سے رٹا لگانے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی؛ بلکہ وہ خود اسمائے رجال کی چلتی پھرتی کتاب تھے۔

اگر آج ہم بھی ایسی علمی مجلسوں اور محفلوں کو فروغ دیں اور ان میں ان ہی موضوعات کو زیر بحث لائیں تو بعید نہیں کہ ہمیں بھی راویوں کے احوال ازبر ہو جائیں، آج ہمیں ایسا علمی ماحول اور فضا قائم کرنے کی ضرورت ہے جو صدیوں پہلے محدثین کرام کے زمانے میں ہوا کرتا تھا۔

ہاں دکھادے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے