Header Ads Widget

بغیر میوزک والے گانے سننے کا حکم کیا ہے؟

 بغیر میوزک والے گانے سننے کا حکم کیا ہے؟







بغیر میوزک کے گانے سننے کا حکم




جمہور فقہا کے نزدیک یہ اصول مسلم ہے کہ کسی بھی امر کی بابت حلت و حرمت کا فیصلہ کرنے کے لیے شرعی دلیل کی حاجت ہوتی ہے؛ لہذا ہر وہ عمل جس کی ممانعت پر کوئی شرعی دلیل وارد نہ ہو وہ اپنے اصل کے لحاظ جائز ہے۔

بعض لوگ گانا کے متعلق سمجھتے ہیں کہ اس کی ممانعت پر کوئی شرعی دلیل نہیں اس لیے اس کا سننا حلال ہے؛ حالاں کہ یہ ان کی بھول اور کم فہمی ہے۔


گانا سننے کے جواز و عدم جواز کو جاننے سے قبل یہ جان لینا ناگزیر ہے کہ گانا کا اطلاق کس پر ہوتا ہے اور گانا کی کتنی قسمیں ہیں، تب جاکر یہ بات واضح ہو سکےگی کہ شریعت میں کون سی قسم کا گانا جائز ہے اور کون سی قسم حرام ہے؛ کیوں کہ کوئی چیز اگر چہ فی نفسہ حلال ہو لیکن اس کی کیفیت بدل جانے سے احکام بھی مختلف ہو جاتے ہیں۔


گانا کس کو کہا جاتا ہے؟

گانا کا عربی لفظ ”الغناء“ ہے، اس کا اطلاق ہر ایسے موزوں و غیر موزوں کلام پر ہوتا ہے جسے ترنم و خوش الحانی اور مخصوص لے میں گایا جائے۔

دور حاضر میں گانے دو طرح کے ہوتے ہیں:


ایک یہ کہ گانے کے ساتھ موسیقی کے آلات کا استعمال کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے میوزک، ساز اور ایک دھن پیدا ہوتی ہے، جیسا کہ موجودہ دور میں فلمی گانے ہوتے ہیں، اور یہی گانا عام ہے۔


اور دوسری قسم ان گانوں کی ہے جس میں میوزک و موسیقی کے آلات کا بالکل استعمال نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ لوگ از خود اسے ترنم اور خوش الحانی کے ساتھ گنگناتے ہیں،جیسا کہ جلسوں اور غزل کی محفلوں میں شعرا حضرات گاتے ہیں، یا جیسے ماں اپنے بچوں کو سلانے کے لیے لوریاں گاتی ہیں، اور جیسے قدیم زمانے میں حدی خوانی کی جاتی تھی۔





گانا سننے کا حکم

اب گانوں کی مختلف قسموں کے تعلق سے مختلف احکام بیان کیے جاتے ہیں۔

اگر کسی گانے میں میوزک و موسیقی وغیرہ کے آلات کا استعمال کیا گیا ہو؛ خواہ وہ کسی بھی درجے میں ہو، بالاتفاق حرام ہے۔
 البتہ دف کی صورت میں بعض فقہا نے ضرورت کے پیش نظر اجازت دی ہے، اور بعض نے دف فقط عورتوں کے حق میں مشروع گردانا ہے۔
(دف ایک آلہ ہے جو موسیقی کی ساز کے لیے استعمال ہوتا ہے)


بغیر میوزک والے گانے سننا

اب رہے وہ گانے جن میں موسیقی و میوزک کے آلات کا بالکل استعمال نہ کیا گیا ہو، اس کی چند صورتیں ہیں:
اگر اس قسم کا گانا کوئی عورت مردوں کے سامنے گاتی ہے تو اس کا گانا اور سننا دونوں حرام ہیں؛ کیوں کہ عورت کی آواز سننا بھی غیر محرم کے لیے ناجائز ہے؛ حتی کہ تلاوت میں بھی عورت کو اپنی آواز بلند کرنے سے منع کیا گیا ہے؛ لہذا کسی بھی صورت عورت مردوں کے سامنے کسی قسم کا گانا نہیں گا سکتی ہے، ایسا کرنا شرعا سخت حرام ہے۔
آج کل مشاعروں میں عورتیں اس قسم کی غزل گوئی کرتی ہیں اور مرد بھی بڑے شوق سے سنتے ہیں؛ حالاں کہ یہ سننا سنانا دونوں حرام ہیں۔
ہاں اگر عورت خالص عورتوں کی محفل میں ایسا کلام پڑھتی ہے جو فحش و فجور سے پاک ہو اور اس میں وعظ و نصیحت یا اچھے مضامین ہوں تو ایسا کلام پڑھنا جائز ہے۔

ایک صورت یہ ہے کہ مرد خالص مردوں کے محفل میں کوئی گانا (گانا کا عرف عام والا گانا مراد نہیں) گاتا ہے جس میں میوزک نہ ہو تو اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک ایسے گانے جائز ہیں، اور کچھ علما نے اسے مکروہ گردانا ہے۔
حقیقی بات یہ ہے ایسا کلام جس میں فحش، بےہودہ، ناشائستہ، بےحیا اور قابل شرم الفاظ کا استعمال نہ کیا گیا تو ایسا کلام گانا جائز ہے؛ چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت حسان بن ثابت اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہما ایسے پاک صاف اور حوصلہ افزا اور نعتیہ کلام پیش کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ان پر نکیر نہیں فرمائی۔


ہر وہ گانا جس میں بےہودہ، فحش اور ناشائستہ الفاظ ہوں، مثلا غیر محرم عورتوں کے حسن کی تعریف ہو شہوت انگیز مضامین ہوں، شراب نوشی وغیرہ کی باتیں ہوں تو یہ گانے اور غزل قطعی طور پر حرام ہیں؛ خواہ اس میں میوزک کا استعمال کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔


صرف ساتھ ستھرے اور پاک صاف کلام بغیر میوزک کا استعمال کیے گانا جائز ہے؛ تاہم اس میں کثرت اشتغال اور جگہ جگہ جلسے اور محفلیں قائم کرنا کوئی اچھا عمل نہیں ہے۔

مصادر و مراجع: 
المعجم الوسيط| حكم الغناء والموسيقي|المعازف وما يتعلق بها من احكام

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے