Header Ads Widget

اللہ تعالی نے ستاروں کو کیوں پیدا کیا ہے؟

 اللہ تعالی نے ستاروں کو کیوں پیدا کیا؟

اللہ تعالی نے ستاروں کو کیوں پیدا فرمایا؟

ستارے اللہ کی قدرت کے بے مثال نمونے ہیں


کائناتِ عالم اپنے اندر دل چسپیوں کے ہزار سامان رکھتا ہے، یہاں قدم قدم پر عجائبات کا سامنا ہے، لمحہ لمحہ خوبصورتی و رعنائی کے دل فریب جلوے ہیں، ذرا شب کی تیرگی میں آسمانِ دنیا کی سمت ایک نظر ڈالیے !
آپ دیکھیں گے کہ ایک چمکتا دمکتا مسکراتا مہتاب اپنی خنک کرنوں سے عالم پر نورانی چادر تانے ہوا ہے،اور مہتاب کے ارد گرد ستاروں کا جھرمٹ اپنی جلوہ آرائی میں مگن ہے۔
شنید ہے کہ انسان آسمان کی خوش منظری سے کبھی سیراب نہیں ہوتا، اور ہو بھی کیسے؟
بھلا کس کا جمالیاتی ذوق اس قدر سطحی ہوگا کہ مہ و انجم کی دل فریبی اور دلکشی سے اس کا من بھر جائے؟
جس کا جمالیاتی ذوق افق پر پرواز کرے وہ کبھی بھی ستاروں سے اپنا دامن ذوق آزاد نہیں کر سکتا۔
لاریب کہ یہ ستارے قدرت کی اعلی اور بےمثال کاریگری کے مظہر ہیں، صناع عالم کی شاہکاری اور حسن تخلیق کے بےنظیر نمونے ہیں۔

لیکن کبھی آپ کے آبگینۂ خیال میں یہ بات آئی ہے کہ آخر ان ستاروں کی تخلیق کے پس پردہ کیسی حکمتیں پنہاں ہیں؟ آئیے ہم یہ سوال اس ذات کے دربار میں کرتے ہیں جس کے لفظ کن سے یہ ستارے معرض وجود میں آئے ہیں، یقینا کسی مصنوع کی حکمت اس کے صانع سے بہتر کوئی بیان نہیں کر سکتا؛لہذا ہم اس صانع کے کلام قرآن کی اوراق گردانی کریں گے اور دیکھیں گے کہ آخر فاطرِ ہستی ستاروں کی تخلیق کے متعلق کیا فرماتا ہے۔

اس قبل یہ جان لیں کہ تمام ستاروں کا حجم یکساں نہیں ہوتا، اور نہ ہی وہ سب زمین سے ایک متعین مسافت پر واقع ہوتے ہیں؛ بلکہ ان کا سائز و حجم ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور زمین سے اس کی مسافت بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے، بعض متحرک ہوتے ہیں یعنی گردش کرتے رہتے ہیں اور بعض ثابت و ساکن ہوتے ہیں، بعض ستاروں کا حجم سورج سے بھی بڑا ہوتا ہے اور سورج سے بہت زیادہ مسافت پر واقع کی بنا پر بہت چھوٹے نظر آتے ہیں۔


اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ستاروں کے متعلق تین باتیں ارشاد فرمائی ہیں:

  1. آسمان کی زینت و خوبصورتی 
  2. شیطان کو ستاروں کے ذریعے مارنا
  3. لوگوں کا ستاروں کے ذریعہ راستہ معلوم کرنا


ہم ان تینوں باتوں کو ذیل میں مدلل بیان کرتے ہیں۔


آسمانوں کی زینت کے لیے

قرآن کریم میں حق تعالى نے ارشاد فرمایا ہے:
ولقد جعلنا في السماء بروجا و زيناها للنظرين
ترجمہ: اور بے شک ہم نے آسمانوں میں برج بنائے اور اس کو دیکھنے والوں کے لیے مزین کر دیا۔

اور ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
فقضاهن سبع سماوات في يومين و أوحى في كل سماء أمرها، وزينا السماء الدنيا بمصابيح و حفظا ذلك تقدير العزيز العليم“.
ترجمہ: اور ہم نے انھیں دو دن میں سات آسمان کر دیے اور ہر آسمان کو اسی کے کام کے احکام بھیجے، اور ہم نے دنیا کے آسمان کو چراغوں سے مزین کر دیا، اور نگہبانی کے لیے، یہ اس عزت والے علم والے کا مقرر کیا ہوا ہے۔

دونوں آیتوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے اللہ پاک نے ستاروں کو پیدا کیا؛ تاکہ وہ آسمانوں کی زینت بن سکیں، جس طرح کسی خوبصورت محل کو قمقموں سے مزین کر دیا جاتا ہے اسی طرح آسمان کی تزیین کے لیے اللہ پاک نے ستاروں کو پیدا کیا ہے۔


شیطان کو ستاروں کے ذریعے مارنا

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے:
 ” إنا زينا السماء الدنيا بزينة الكواكب وحفظا من كل شيطان مارد لا يسمعون إلى الملإ الأعلى ويقذفون من كل جانب دحورا ولهم عذاب واصب إلا من خطف الخطفة فأتبعه شهاب ثاقب
ترجمہ: بے شک ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کیا اور ہر سرکش شیطان سے حفاظت کے لیے، وہ عالم بالا کی طرف کان نہیں لگا سکتے اور ہر طرف سے ان پر مار پھینک ہوتی ہے بھگانے کے لیے، اور ان کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے، مگر جو ایک آدھ بار اچک لے چلا تو روشن انگارہ اس کے پیچھے لگا۔
ابنِ خطیب رحمہ اللہ ان آیات کی ذیل میں فرماتے ہیں کہ شیاطین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عالم بالا کی باتوں کو چوری چپکے سن لیا کرتے تھے اور نجومیوں کو بتلاتے تھے پھر نجومی ان باتوں کے ذریعہ لوگوں کے ایمان و عقیدے کو خراب کرتے تھے، پھر جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو شیاطین کو سننے سے روک دیا گیا،اب اگر کوئی شیطان چوری چپکے سننے کی کوشش کرتا ہے تو ستاروں کے ذریعے اسے مارا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ جل جاتا۔

معلوم ہوا کہ ستاروں کی تخلیق کا ایک مقصد شیطان کو مارنا ہے؛ تاکہ وہ عالم بالا کی باتیں نہ سن سکیں۔


ستاروں کے ذریعے راستہ معلوم کرنا



زمانۂ قدیم میں گوگل میپ جیسی سہولتیں میسر نہ تھیں، لوگ ستاروں کے ذریعے اپنی منزل کا پتہ لگایا کرتے تھے؛ چناں چہ ارشاد باری تعالی ہے:
وهو الذي جعل لكم النجوم لتهتدوا بها في ظلمات البر والبحر قد فصلنا الآيات لقوم يعلمون“.
ترجمہ:اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ تم ان کے ذریعے خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ پاؤ۔ بیشک ہم نے علم والوں کے لیے تفصیل سے نشانیاں بیان کردیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ ستارے اپنے مخصوص برج (مشرق،مغرب،شمال اور جنوب)میں واقع ہوتے ہیں وہی ان کا مستقر ہوتا ہے، زمانۂ قدیم میں لوگ ان مخصوص ستاروں کو دیکھ کر جہت کا اندازہ کرتے اور اپنی منزل کا راستہ معلوم کرتے تھے،
دن میں تو وہ سورج کے ذریعے جہت کا پتہ لگا لیتے؛ لیکن رات کی تاریکی میں وہ ستارے ان کے کام آتے تھے، اور نہ صرف خشکی میں سفر کرنے والے؛ بلکہ سمندر میں کشتیوں پر سفر کرنے والے بھی ستاروں سے راستہ معلوم کرتے تھے۔

قرآن کریم میں ستاروں کے متعلق یہ تین باتیں آئی ہیں جو ہم نے بیان کردی ہیں۔





ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے