Header Ads Widget

اسلام میں چور کے ہاتھ کیوں کاٹ دیے جاتے ہیں؟

اسلام میں چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟



اسلام میں چوری کرنے پر چور کے ہاتھ کیوں کاٹ دیے جاتے ہیں؟






شریعت اسلامیہ میں انسانی حقوق کا بہت پاس و لحاظ رکھا گیا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ بہت سے سنگین جرائم کے ارتکاب پر انتہائی سخت حدود قائم کیے گئے ہیں؛ چناں چہ اسلام میں اگر کوئی شخص چوری کرتا ہے تو قاضی کو حق ہے کہ اس سنگین جرم کے ارتکاب پر چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے، اسلام کا یہ حکم دیگر احکام کے مثل بہت سی حکمتوں پر مبنی ہے۔
چور کے ہاتھ کاٹ دینے سے مسلمانوں کے اموال کی حفاظت و صیانت ہوتی ہے اور وہ شخص دوبارہ اس جرم کے ارتکاب پر قادر نہیں ہو پاتا ہے۔

چور جب چوری کرتا ہے تو اپنے ہاتھ کا استعمال کرتا ہے، تو بظاہر اس کا ہاتھ ہی اصل مجرم اور خائن ہوتا ہے، جس کی حیثیت ایک بیمار عضو کی سی ہوتی ہے؛ لہذا اسے کاٹ کر پورے جسم کو اس خیانت کی بیماری سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔


ظاہر ہے کہ جب چور کا ہاتھ کاٹا جائےگا، تو جو دوسرے لوگ چوری کا پلان رہے ہوں گے، ان کے ارادے پست ہو جائیں گے، اور مارے خوف کے بہت ممکن ہے کہ وہ اپنے ارادے سے باز آ جائیں، اس طرح یہ جرم انتہائی کم؛ بلکہ ختم ہو جائےگا۔


جب چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹ دیا جائےگا تو ظاہر ہے، وہ اس گناہ کے ارتکاب سے محفوظ رہےگا، جو کہ بہت بڑی بات ہے، نیز مسلمانوں کے املاک و جاگیر کی تحفظ بھی ہوگی، اور معاشرے میں امن و شانتی کی فضا قائم رہےگی۔

چور کو جب سزا دی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں دیگر جرائم بھی کم ہو جائیں گے، اور لوگ حرام و غلط طریقہ کے مال جمع کرنے سے گریز کریں گے۔

الغرض جتنے بھی جرائم پر حدود قائم کیے ہیں وہ در اصل معاشرے کی سالمیت اور ظلم و جور کے انسداد کے پیش نظر ہے؛ تاکہ نفسیاتی طور پر لوگ یہ دیکھ کر متاثر ہوں اور اپنے ناپاک ارادوں سے باز آ جائیں۔

یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ان تمام سزاؤں کے نافذ کرنے کا حق اسلامی عدالت کو ہے عامۃ المسلمین کو اس کا اختیار نہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے