Header Ads Widget

گرمیوں میں سفید کپڑے پہننے کا فائدہ

 سفید لباس کے فائدے


ہم دیکھتے ہیں کہ گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے لوگ مختلف اور طرح طرح کی تدبیریں اپناتے ہیں؛ کیوں کہ گرمی کی شدت سے اگر نہ بچا جائے تو انسان کا چین غارت اور سکون مفقود ہو جاتا ہے۔
ویسے گرمی سے بچاؤ کے لیے دور حاضر میں بہت سے آلات معرضِ وجود میں آئے ہیں جو انسانوں کو سکون فراہم کرنے کی خدمت انجام دیتے ہیں۔

کیوں پہنتے ہیں لوگ سفید کپڑے؟


لیکن اکثر اس بات کا بھی مشاہدہ ہوتا ہے کہ لوگ گرمیوں میں ہلکے پھلکے اور سفید کپڑے پہننے کو ترجیح دیتے ہیں، اور سیاہ و سرخ کپڑوں کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے ہیں،
آخر اس کے پسِ پردہ کون سی سائنسی حکمت کارفرما ہے اور اس کا کیا فائدہ ہے؟
یہ تحریر اسی امر کا انکشاف کرےگی کہ سفید کپڑا دیگر کپڑوں کی بہ نسبت گرمیوں میں زیادہ راحت بخش اور پر سکون کیوں ہوتا ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ سفید کپڑا زیب تن کرنے سے گرمی کی شدت کا کافی کم احساس ہوتا ہے، وہیں اگر سیاہ یا سرخ کپڑا پہن لیا جائے تو گرمی کا شدید احساس ہوگا، یہی وجہ ہے کہ سمجھدار لوگ گرمیوں میں سفید لباس کو پسند کرتے ہیں۔

سیاہ کپڑوں میں گرمی زیادہ کیوں لگتی ہے؟

سیاہ اور سرخ کپڑوں میں گرمی زیادہ لگتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کالے کپڑوں میں گرمی کو جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، یعنی جب سیاہ کپڑوں میں سورج کی کرنیں اثرانداز ہوتی ہیں تو وہ کپڑا ان کی حرارت اپنے اندر جذب کر لیتا ہے، اور وہ حرارت اس کپڑے میں دیر پا ہوتی ہے، یعنی فی الفور اس کا زوال نہیں ہوتا ہے؛ کیوں کہ سورج کی شعائیں سیاہ کپڑوں سے منعکس(Reflect ) نہیں ہو پاتی ہیں، اس کی وجہ سے کپڑا زیادہ گرم ہو جاتا اور جسم کو شدید گرمی کا احساس ہوتا ہے۔

سفید کپڑوں میں گرمی کم کیوں لگتی ہے؟

لیکن سفید کپڑے کا رد عمل سیاہ کپڑے کے بر عکس ہوتا ہے، سفید کپڑا سورج کی گرم شعاؤں کو بجائے جذب کرنے کے منعکس(Reflect ) کر دیتا ہے۔
اس کو اس طرح سمجھیے کہ کسی آئینہ پر جب سورج کی کرنیں پڑتی ہیں تو وہ منعکس ہوکر کسی دوسری چیز پر جا پڑتی ہیں، یہی عمل سفید لباس کے ساتھ ہوتا ہے؛ لہذا اس کی وجہ سے کپڑا کم گرم ہوتا ہے اور ہمارا جسم کم گرمی محسوس کرتا ہے؛ لہذا جو لوگ گرمی سے تنگ رہتے ہیں انہیں دیگر تدابیر کے ساتھ ساتھ سفید لباس کو بھی اپنانا چاہیے۔

نوٹ:شرعا سفید کپڑے کی بہت سی فضیلتیں ہیں اور خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پسندیدہ لباس تھا؛ لیکن اس تحریر میں  سائنسی نقطۂ نظر سے بات کی گئی ہے، اسی وجہ سے اس کی شرعی فضیلتوں کو قصدا ترک کر دیا گیا ہے۔

یہ جانکاری ماہرین کی تحقیق پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے اتفاق ضروری نہیں۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے