Header Ads Widget

اسلام میں وقف کی اہمیت اور وقف ترمیمی بل 2024

 اسلام میں وقف کی اہمیت اور وقف ترمیمی بل۲۰۲۴ء




از: امانت علی قاسمی

استاذ و مفتی دارالعلوم وقف دیوبند

وقف ایک عبادت ہے جس کا مقصد اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنا اور خلق خدا سے محبت کا اظہار کرنا ہے ،جب کو ئی شخص زمین وقف کرتاہے تو واقف کی ملکیت ختم ہوجاتی ہے اور اس زمین پر اللہ تعالی کی ملکیت قائم ہوجاتی ہے ؛اسی وجہ سے حضرات فقہاء کرام لکھتے ہیں کہ وقف کے مکمل ہوجانے کے بعد وقف کرنے والے کی ملکیت اس زمین سے ختم ہوجاتی ہے ،اب اس زمین پر واقف کا بھی اختیار نہیں ہوتاہے اس زمین پر وراثت قائم نہیں ہوتی ، اس ز مین کو واقف نہ عاریت پر دے سکتاہے نہ رہن پر دے سکتاہے،واقف کے انتقال کرجانے کے بعد واقف کے ورثہ کا اس زمین پر کوئی اختیار نہیں ہوتاہے ۔اسی طرح وقف کرنے کی کچھ شرطیں بھی ہیں اس میں ایک شرط یہ ہے کہ واقف اس چیز کا مالک ہو، واقف نے اپنے اختیار اور رضا مندی سے وقف کیا ہو، وہ شئی مملوکہ ہو،واقف نے اس کو اپنی ملکیت سے علاحدہ کردیا ہو۔اگر وقف کی گئی چیز زمین ہے تو اس کے ساتھ کسی کا کوئی حق متعلق نہ ہو۔

وقف کے فوائد

وقف کے مختلف فائدے ہیں :وقف کا ایک فائدہ تو اللہ تعالی کی رضاو خوشنودی ہے،واقف کو اس وقف کی وجہ سے ہمیشہ ثواب ملتاہے،مدارس ،مساجد،قبرستان،خانقاہوں کا قیام اس کے ذریعہ عمل میں آتاہے ،اور ان چیزوں سے جو بھی نیکی انجام دی جاتی ہے اس کا ثواب وقف کرنے والے کو بھی ملتاہے ، اسلام کا اجتماعی سماجی و معاشی نظام اس کے ذریعہ قائم ہوتاہے ،غریبوں کی مدد ہوتی ہے ، یتیموں کی کفالت ہوتی ہے ،عوامی فلاح و بہبود کے کام انجام دئے جاتے ہیں ۔وقف صرف غریبوں کے لیے نہیں ہوتا؛ بلکہ اس سے عام لوگ بلکہ مالدار بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں مثلا :کوئی وقف مسافر خانہ کے لیے ہے تو کوئی بھی مسافر اس میں قیام کرسکتاہے ، اسکول وکالج کے لیے وقف ہے تو کوئی بھی وہاں سے تعلیم حاصل کرسکتاہے ۔وقف کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ اگر وقف کا صحیح استعمال کیا جائے تو ملک کا اقتصادی ڈھانچہ مستحکم ہوسکتاہے ،مسلمانوں میں غربت کے خاتمے کے لیے مؤثر کردار ادا کیا جاسکتاہے،مسلمانوں کو تعلیمی پسماندگی سے نکال کر تعلیم کے قومی دھارے میں لاکھڑا کیاجاسکتاہے۔وقف کی بنیادی طورپر دو قسمیں کی جاتی ہیں : وقف عام جسے عمومی فلاح و بہبود کے لیے وقف کیا جاتاہے جیسے مساجد،سڑکوں ،تعلیمی اداروں کے لیے وقف کرنااور دوسری قسم،وقف خاص جو مخصوص خاندان ،اولاد یا کسی مخصوص شخص پر وقف کیا جاتاہے۔

وقف کے فضائل

وقف کو اسلام کی خصوصیات میں شمار کیا جاتاہے ، امام شافعیؒ کا قول ہے کہ اسلام سے پہلے وقف کا نظام نہیں تھا اسلام میں اس نظام کا آغاز ہوا قرآن کریم میں جب یہ آیت نازل ہوئی لن تنالو ا البر حتی تنفقوا مما تحبون (آل عمران:۹۲) کہ تم اس وقت تک خیر یعنی نیکی حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ اپنی سب سے محبوب چیز راہ خدا میں خرچ نہ کردو تو حضرت ابو طلحہ حضور کے پاس آئے اور فرمایا کہ مجھے بیرحاباغ (جو کہ مدینہ میں مسجد نبوی کے قریب بہت قیمتی زمین تھی)مجھے بہت پسند ہے میں اسے راہ خدا میں صرف کرتاہوں؛ چناں چہ حضور ﷺ کے مشورہ سے انہوں نے وہ زمین اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردی، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :یا رسول اللہ !مجھے خیبر میں جو حصہ مال غنیمت کے طورپر ملا ہے وہ سب سے زیادہ پسند ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا مشورہ ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اصل کو روک کر پھل کو راہ خدا میں صرف کردو یعنی وقف کردو تاکہ زمین باقی رہے اور اس کا پھل غریبوں کے لیے وقف ہوجائے ۔(تفسیر ابن کثیر ۲/۶۳)حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے حضور ﷺ نے فرمایا: مومن کو اس کے مرنے کے بعد اس کی جن نیکیوں کا ثواب ملتاہے اس میں وہ’’ علم ‘‘ہے جو اس نے دوسروں کو سکھایا اور اس کو پھیلایا یا نیک اولاد ہے یا قرآن کا کسی کو وارث بنایا ، یا مسجد بنایا یا مسافر خانہ بنایا یا نہر بنادی ،یا وہ صدقہ جس کواس نے اپنی زندگی اور صحت کے زمانہ میں نکالا ان چیزوں کا ثواب اس کو مرنے کے بعد بھی ملتاہے۔(سنن ابن ماجہ، ۲۴۲)حضرت سعد بن عبادہ نے حضورﷺ سے فرمایا کہ یا رسول اللہ میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے ان کی طرف سے کون سا صدقہ کرنا زیادہ بہتر ہے تو حضور  ﷺ نے فرمایا پانی صدقہ کرو! چناں انہوں نے اپنی والدہ کی طرف سے کنواں کھدوایا اور اسے وقف کردیا۔(سنن ابی داؤد) آپ ﷺ کے زمانہ میں بیر رومہ کا پانی میٹھا تھالیکن بغیر قیمت کے کوئی اس سے پانی نہیں پی سکتاتھا،حضرت عثمان نے بیر رومہ کا کنواںخرید کر وقف کردیا(سنن ترمذی)حضرت جابر کہتے ہیںمیرے علم میں مہاجرین و انصار میں سے کوئی نہیں تھا جن کے کوئی چیز ہو اور انہوں نے اس کو وقف نہ کیاہو(الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیۃ،۴۴/۱۱۱)یعنی حضرات صحابہ کے درمیان جائداد کا وقف کرناایک عام بات تھی، ہر کوئی اپنی استطاعت کے بقدر جائداد یا دیگر چیزوں کو وقف کرتاتھا اس لیے اوقاف کے ذریعہ مسلم سماج سے غربت کا خاتمہ ہوسکتاہے ،کمزور لوگوں کی دائمی طورپر مدد ہوسکتی ہے،اور وقف کرنے والے کو ہمیشہ ہمیش کے لیے ثواب ملتارہتاہے۔

ہندوستان میں اوقاف کی تاریخ

ہندوستان میں مسلمانوں نے قریب ایک ہزار سال تک حکومت کی اس دوران مسلم بادشاہوں نے بہت سی مسجدیں اور مزارات بنوائے،اور ان پر جائدادیں وقف کیں تاکہ اس کا ہمیشہ نظام جاری رہ سکے کہا جاتاہے سب سے پہلے فیروز شاہ تغلق کے دور حکومت میں ہندوستان میں وقف کا نظام منظم ہوا اس کے بعد شیر شاہ سوری اور عالمگیر اورنگزیب نے مختلف جائدیں وقف کیں ،اس کے علاوہ وقف کی اسی اہمیت اور ثواب جاریہ کے پیش نظر ہمیشہ مسلمان اپنی قیمتی جائدادوں کو وقف کرتے رہے،ہندوستان کے مختلف صوبوں میں نوا بوں نے مدارس قائم کئے اور اس کے نظم کو چلانے کے لیے جائدادیں وقف کیں تاکہ اس کے ذریعہ مدارس کا نظام سہولت سے جاری رہ سکے انگریزعہد حکومت میں مدارس کو بند کردیا گیا اور وقف کی جائداوں کا بے دریغ غلط استعمال ہوا، بہت سی جائداوں کو انگریزوں نے اپنے قبضہ میں لے لیا پھر جب مسلمانوںنے احتجاج کیا تو آئندہ کے لیے وقف ایکٹ ۱۹۲۳ء بنایا گیا پھر ملک کی آزادی کے ۱۹۵۴ میں وقف ایکٹ بنایا گیااور مختلف مواقع پر اس میں ترمیم کی گئی ، اس قانون کا مقصد وقف جائداد کو تحفظ فراہم کرنا اور اس کے غلط استعمال کو روکناتھا لیکن افسوس کہ ان تمام تر قانون کے بعد بھی وقف کاتحفظ نہیں ہوسکاپھر ۱۹۸۴ء میں نیا وقف قانون آیا،لیکن اس میں بھی مسلمانوں کے مطالبات کو نظر انداز کیا گیاپھر ۱۹۹۵ء میں اور دوبارہ ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۳ء میں وقف میں ترمیم کی گئی آخری وقف ایکٹ میں کسی حد تک مسلمانوں کے مطالبات کو سنا گیاتھااور کچھ امید تھی کہ اگر اس قانون پرایمان داری سے عمل ہوتاتو اوقاف کا بہتر استعمال ہوسکتاتھا لیکن ایسا نہیں ہوا اور اب ۲۰۲۴ء میں حکومت نیا ترمیمی بل لے کر آئی ہے۔اس وقت ہندوستان میں سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ۹ لاکھ ایکڑ سے زائد زمینیں اوقاف کی ہیں ، ہندوستان میں فوج اور ریلوے کے بعد سب سے زیادہ زمینیں اوقاف کے پاس ہیں۔اسی وجہ سے جن لوگوں کو مسلمانوں کا وجود ایک آنکھ نہیں بھاتا ان کو مسلمانوں کی اوقاف سے بھی تکلیف ہے او روہ کسی قیمت ان جائداوں کا ناجائز قبضہ چاہتے ہیں ۔ 

نئے بل میں کیا ہے؟

اس نئے بل میں تقریبا چالیس ترامیم کی گئی ہیں ،ہمیشہ کی طرح حکومت نے مسلمانوں کو یہ جھانسہ دیا ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے مفاد کے لیے لایا گیا،اس بل سے خواتین،بچوں اور کمزور مسلمانوں کو فائدہ ہوگا لیکن اس بل کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وقف مسلمانوںکا مذہبی عمل ہے اور اس کے احکامات فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں اس کے خلاف کرنا درست نہیں ہے لیکن حکومت نے اس ترمیمی بل کا خاکہ بناتے وقت کسی بھی مسلم تنظیموں یا علماء کرام سے مشورہ نہیں کیا ہے ۔

اس بل کا اگر ہم جائزہ لیں تو صاف معلوم ہوتاہے کہ حکومت کی نیت درست نہیںہے۔اس ترمیم میں ایک بڑی تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ اب نئے وقف کونسل میں چاہے مرکزی وقف بورڈ ہو یا صوبائی وقف بورڈ اس کے ارکان میں غیر مسلم بھی شامل ہوں گے بلکہ وقف بورڈکا چیف ایگزیکیٹیو غیر مسلم بن سکتاہے ،اسی طرح وقف کا سی ای او غیرمسلم بن سکتاہے سوال یہ ہے کہ جب گرودوارہ کمیٹی میں کوئی مسلمان نہیں ہوتاہے اور ہندوؤں کی جو مندر وغیرہ کی کمیٹی ہوتی ہے اس میں کوئی مسلمان ممبر نہیں ہوتاہے یوپی کیرالہ ،کرناٹک ،تمل ناڈو می ایسے قوانین ہیں کہ ہندو مذہبی املاک کے معاملات میں ہندو ہی اس کا ممبر ہوگا تو پھر وقف بورڈ میں کوئی ہندو کیوں کر ممبر ہوگااور ممبر ہی اس کے مرکزی عہدوں پر ہندو کیوں کر فائز ہوسکتاہے،کیا یہ مسلمانوں کی املاک کو غیر مسلموں کو دینے جیسا نہیں ہے، جب قانون کے اعتبار سے غیر مسلم وقف نہیں کرسکتاہے تو وقف کا ممبر کیوں کر ہوسکتاہے ؟یہ شق خود حکومت کے منشاء پر سوال کھڑے کرتاہے کہ اس کے ذریعہ وقف کی حیثیت کو تبدیل کرنااور اس کا غلط استعمال کرناہے۔جب اس کے مرکزی کمیٹی میں غیر مسلم ہوں گے تو نیچے بہت سے عہدوں پر بھی یقینا بہت سے غیر مسلم ہوں گے اس طرح وقف بورڈ کے ذریعہ اگر چند مسلمانوں کو ملازمت مل جاتی ہے وہ بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

اس نئی ترمیم میں یہ بھی ہے کہ اوقاف کی جائداوں کو کس طرح استعمال کیا جائے گا اس کا حکومت تعیین کرے گی ،ظاہر ہے کہ یہ قانون وقف کے اصول کے خلاف ہے اس لیے کہ، فقہ کی کتابوں میں مستقل وقف کا ایک باب ہوتاہے جس میں وقف کے احکام کو تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے،مسجد کے وقف کے احکام الگ ہیں ، مدارس کے وقف کے احکام الگ ہیں ،دیگر اوقاف کے احکام الگ ہیں،فقہ کی کتابوں میں ایک مسئلہ صراحت کے ساتھ لکھا ہوا کہ واقف کی شرط شریعت کی نص کے درجہ میں ہے یعنی اگر واقف نے وقف کرتے وقت اس وقف کا مصرف طے کردیا ہے تو جس طرح شریعت کی صراحت پر عمل کرنا ضروری ہے اسی طرح واقف کی شرط پر عمل کرنا ضروری ہوگا حتی کہ اگر واقف نے مدرسہ کے نام پروقف کیا ہے تو اس کو مسجد میں استعمال کرنا یا قبرستان کے نام پر وقف کیا ہے اس کو مدرسہ میں استعمال کرنا شرعی طورپر درست نہیں ہے جب کہ اس قانون سے حکومت وقف کو جہاں چاہے گی استعمال کرسکتی ہے اس کا دو بڑا نقصان ہوگا ایک تو یہ کہ وقف کی جائدادیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جائیں گی اور دوسرا بڑا نقصان یہ ہوگا کہ آئندہ کے لیے مسلمان وقف کرنے سے رک جائیں گے اور بہت بڑے خیر اور ثواب سے محروم ہوجائیں گے ۔

نئے قانون میں یہ بھی ہے کہ جو شخص اسلام پر پانچ سال سے زندگی گزار رہاہے وہی وقف کرسکتاہے جس کے اسلام میں داخل ہوئے ابھی پانچ سال نہیں ہوئے ہیں اس کا وقف قابل قبول نہیں ہوگا ظاہر ہے کہ یہ بھی اسلامی شریعت کے اصول وقف کے خلاف ہے اسلام میں تو غیر مسلم کا بھی وقف کرنا درست ہے جب کہ یہاں پر مسلمان ہونے کے بعد بھی اس کا وقف درست نہیں ہے یہ ایک مسلمان کو ایک عبادت کی ادائیگی سے روکنے کے مترادف ہے اور مسلمان کو کسی عبادت کے انجام دہی سے روکنا خود دستور ہند سے دئے گئے بنیادی حقوق کے خلاف ہے ۔دستور کی دفعہ ۲۵ میں ہے کہ ہر شخص کو آزادی سے مذہب قبول کرنے اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی اجازت ہے اسی طرح دفعہ ۲۶ میں ہے کہ ہر شخص کو اپنے مذہبی اور خیراتی اغراض کے ادارہ قائم کرنے اور از خود اس کا انتظام چلانے کا اختیار ہے(بھارت کا آئین،ص۵۳)

اس نئی ترمیمی بل میں ایک شق یہ بھی ہے کہ جو اوقاف کی جا ئدادیں باضابطہ طورپر واقف کی طرف سے رجسٹرڈ نہیں ہیں بلکہ اسے صرف وقف کے طورپر استعمال کیا جاتاہے اسے وقف تسلیم نہیں کیا جائے گاوقف کے درست ہونے کے لیے رجسٹرڈ ہونا لازم ہوگا یہ قانون بھی اسلام کے اصول وقف کے خلاف ہے اس لیے کہ حضرات فقہاء نے زبانی طورپر وقف کو درست قرار دیاہے ۔اس قانون کی بنیاد پر بہت سی جائدادیں وقف ہونے سے نکل جائیں گی اور حکومت ان جائدادوں پر اپنا تسلط حاصل کرلے گی ، اس لیے کہ ہندوستان میں اوقاف کی تاریخ بہت پرانی ہے ، اور بہت سی مساجد ہیں جو چار سو یا پانچ سو سال پرانی ہیں ظاہر ہے کہ ان کا کوئی ریکارڈ تلاش کرنا ممکن نہیں ہے اس کے وقف ہونے کا یہی ثبوت ہے کہ اس کو اتنے سالوں سے بطوروقف کے استعمال کیا جارہاہے قانون کی یہ شق بھی سیدھے طورپر مسلمانوں کے اوقاف کو ہڑپنے اور ان کو اپنی اوقاف سے بے دخل کرنے جیسا ہے اس طرح بہت سی مساجد اور مدارس بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں ۔

بل میں یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اگر اپنی پوری جائداد کو وقف کرے تو اس کا ایک تہائی ہی وقف مانا جائے گا یہ مسئلہ بھی شرعی طورپر درست نہیں ہے ،اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں صحت کی حالت میں اپنی پوری جائداد وقف کردے تو وہ وقف درست ہے ہاں اولاد کو محروم کرنا درست نہیں ہے بعض مرتبہ کسی کا کوئی قریبی وارث نہیں ہوتاجس نے اس کی دیکھ ریکھ کی ہو او راس کی زندگی کی آخری لمحات میں اس گاؤں کی مسجد یا مدرسہ کمیٹی نے اس شخص کی دیکھ ریکھ کی تو وہ شخص اپنی پوری جائداد مسجد کے نام یا مدرسہ کے نام وقف کردیتاہے تووہ وقف درست ہے شرعی طور پراس میں کوئی قباحت نہیں ہے جب کہ اس قانون میں ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے اور ایک تہائی سے زیادہ کو درست نہیں مانا گیا ہے۔ 

نئے قانون کی ایک شق یہ ہے کہ اختلاف نزاع کی صورت میں وقف کے ہونے نہ ہونے کا اختیار ضلع مجسٹریٹ کو ہوگا ابھی اس سلسلے میں وقف ٹربیونل ہے جس میں یہ فیصلہ ہوتاہے جس کو صوبائی چیف جسٹس مقرر کرتاہے لیکن اگر تمام تر اختیارات ضلع انتظامیہ کو دے دیا گیاکلکٹر جس زمین کے بارے میں یہ لکھ دے کہ یہ سرکاری زمین ہے تو وہ سرکاری زمین مان لی جائے گی اس طرح جہاں جہاں مسجد و مندر کا مقدمہ چل رہاہے وہاں آسانی سے صرف کلکٹر سے لکھوا کر زمین کو حاصل کیا جاسکتاہے اسی طرح اوقاف کی نصف جائدادوں پر اس وقت خود حکومت قابض ہے اگر صوبہ کے وزیر اعلی کا کوئی حکم ضلع انتظامیہ کو آجائے تو ضلع انتظامیہ کے لیے اس کے خلاف فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوگا ۔ اس طرح وقف بورڈ کے اختیارات دھیرے دھیرے ختم ہوجائیں گے ۔بل کی تمام شقوں کو پڑھا جائے تو صاف ہوجاتاہے کہ وقف کے تعلق سے حکومت کی نیت درست نہیںہے ،مسلمانوں کی اتنی بڑی جائدادوں کو اپنے قبضہ میں لے کر مزید مسلمانوں کو مفلوج کرنے اور اپنے لوگوں کو فائدہ پہونچانے کا منشا ء ہے۔ موجودہ قانون کی وجہ سے واقف کے منشاء کے خلاف وقف کا استعمال ہوگا،وقف ٹربیونل کی جگہ کلکٹر راج قائم ہوگا اور کلکٹر جو چاہے گا فیصلہ کرے گے ، جن وقف کی جائداوں پر نزاع ہے ان میں کلکٹر کا فیصلہ آخری ہوگا،مجوزہ قانون کی وجہ سے خود حکومت سابقہ اوقاف کے قوانین بے حیثیت ہوجائیں گے۔وقف جو کہ شرعی عمل سے اس میں حکومت کی مداخلت ہوگی اور مذہبی کاموں پر عمل کی آزادی سلب ہوجائے گی ۔وقف بورڈ کی خود مختاری خطرے میں پڑ جائے گی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے