Header Ads Widget

یہ قرآن اور حافظ قرآن کی ناقدری نہیں؟

یہ قرآن اور حافظ قرآن کی ناقدری نہیں؟ 

یہ قرآن اور حافظ قرآن کی ناقدری نہیں؟

میرے پڑوس میں کئی گاؤں ہیں جو جلسہ بازی سے ناصرف متاثر ہیں بلکہ جلسہ ان کی گھٹی میں پڑا ہے۔پڑوس میں کس مپرسی و  بے چارگی کے درجنوں کیسز رو نما ہوتے ہیں اس سے انہیں کوئی مطلب نہیں مگر ہر سال بڑے پیمانے پر جلسے کی تیاریاں کرنا،مہنگے نعت فروش و تقریر فروش کو مدعو کرنا کار خدا سمجھتے ہیں۔

پڑوس کے ایک قریبی گاؤں، ہر سال ایک گویے کو نعت فروشی کا معاوضہ ۶۰ ہزار بخوشی ادا کرتا ہے۔اس کے لیے گاؤں کے لونڈے چار پانچ ماہ قبل ہی پیسے اکٹھا کر لیتے ہیں۔دعوت قبول ہوتے ہی حضرت نعت فروش کے اکاؤنٹ میں ڈیمانڈ کے پورے پیسے پیشگی ڈال دیے جاتے ہیں۔پیشگی رقم ادائیگی کا مطلب دعوت کنفرم ہوئی۔پھر نعت فروش اسی تاریخ مقررہ پر زنانہ روپ دھار کر،چہرے پر فیئر اینڈ ہینسم کریم لگا کر، کپڑوں پہ پرفیوم چھڑک کر،اداۓ دلبرانہ دکھاتے ہوۓ، شانۂ نخوت اچکاتے ہوۓ رو بروۓ مجلس ہوتا ہے۔اتنے سارے تام جھام کے بعد بھی چند نعت سنا کر فجر پڑھے بنا بلکہ عین فجر کی جماعت قائم ہوتے وقت نکل لیتا ہے۔اس طرح وہ فرشتہ لباس ماورائی حضرت، بستی کے جلسہ انتظامیہ کو سستے میں جنت کی ٹکٹ تھما کر پھر دوسرے گاؤں کو اپنے منحوس فیوض سے سیراب کرنے نکل جاتا ہے۔


تصویر کا دوسرا رخ 

رمضان المبارک آنے کو ہے۔چار پانچ دن قبل چند وہی جلسہ باز لوگ تراویح پر ڈسکس کرتے ہیں۔پڑھیں کہ نہ پڑھیں۔پڑھیں تو سورہ تراویح پڑھیں کہ ختم تراویح۔چار و ناچار ختم تراویح پڑھنے پر اتفاق راے بن بھی گیا تو پھر مسئلہ کہ کتنے روزہ پڑھا جاۓ؟بعض عبادت چور لوگ چار دن سے شروع ہوتے ہیں۔کوئی دس، کوئی پندرہ، تو کوئی ۲۱ پر بات چلتی ہے۔گاؤں کے بزرگوں کا خیال کرتے ہوئے ۲۷ روزہ تراویح پر مہر لگتی ہے۔

پھر سستے حافظ کی تلاش میں کئی ادارے کئی علما سے رابطہ کرتے ہیں۔جو سب سے سستا لگا اسے فائنل کر دیا۔سستے دام کے حافظ صاحب بلاۓ گئے۔چاند نکلتے ہی تراویح شروع ہو گئی۔۲۷ کی رات آئی حافظ نے بڑی محنت و محبت سے تراویح میں تیس پارے سناۓ۔پورے ایام میں کمال پارسائی برتتے ہوۓ پنجگانہ بھی پڑھائی۔ اب حافظ کے نذرانہ کی باری آئی۔مسجد کے منبر سے اعلان کیا گیا امام نے تراویح کی فضیلت پر سیر حاصل گفتگو کی۔جمعہ کے خطاب میں نذرانہ کی یاد دہانی کرائی گئی۔حافظ قرآن کی عظمت بتائی گئی۔یہ سب کچھ کے باوجود محض ۱۲ ہزار کا ہی انتظام ہو سکا۔

عبرت کا سبق

جس گاؤں میں ایک نعت فروش پر لوگ ایک رات میں پیشگی ۶۰ ہزار بخوشی ادا کرتے ہیں وہی لوگ قرآن کے تیس پارے تیس روز میں سنانے والے حافظ کو ۱۲ ہزار بھی بڑی مشکل سے ادا کرتے ہیں۔کیوں؟ آخر وہ کونسا محرک ہے جس نے ان بستی والوں کے دل میں نعت خواں کی قدر اتنی بڑھا رکھی ہے اور حافظ کو اتنا سستا بنا رکھا ہے؟ اگر دونوں کو ایک جا کر کے از روۓ شرع اپنے دل سے ہی فتوی پوچھا جاۓ کہ کیا اس سے قرآن اور حافظ قرآن کی ناقدری کا جرم نہیں بنتا؟ہر شخص اپنے دل سے ہی فتوی پوچھ لے کہ حافظ قران پر نعت خواں کو کس نص یا حدیث سے ترجیح دے رہے ہیں؟کہیں ہم قرآن اور حافظ قرآن کی ناقدری کرکے آخرت مشکل تو نہیں کر رہے ہیں۔

ایک شاعر یا مقرر جلسے میں آکر نماز پڑھے نہ پڑھے کسی کو اس ترک نماز کا خیال بھی نہیں آتا۔وہیں تیس روز ایمانداری سے تراویح سنانے والے سے اگر بتقاصاۓ بشریت فجر چھوٹ گئی تو لوگ پوچھتے ہیں حافظ جی آج فجر میں نیند پوری نہیں ہوئی تھی کیا۔کوئی بولے گا حافظ جی آج کل بہت سو رہے ہیں۔اگر ایسا دو چار دن ہو گیا تو وہی رمضان کے نمازی چہ می گوئیاں شروع کر دیتے ہیں۔سوچیں کہ افراد جماعت کو نعت و خطاب کے لیے مہنگے ایکٹر کے انتخاب میں عبادت و پارسائی ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔مگر سستے داموں میں متقی اور تہجد گزار حافظ کی تلاش ہے۔مفسرین و مترجمین قرآن کی عدالت میں ایسے افراد پر توہین کتاب اللہ کی دفعہ لگتی ہے۔

 اگر نعت خواں کی طرح حفاظ بھی نذرانے کی ڈیمانڈ کرنے لگ جائیں تو یہ سارے جلسے باز عیاش ذہنیت کے لوگ تراویح کو ہی حرام ٹھہرا کر چھوڑ دیں۔مگر مقام افسوس کہ شاعر کے بڑھتے ڈیمانڈ کے باوجود کوئی یہ نہیں کہتا کہ جلسہ چھوڑ دیتے ہیں۔یا جلسہ میں چھوٹے نذرانے والے شاعر ہی بلا لیتے ہیں۔

ان سب بے ڈھنگیوں کے پیچھے ہمارے بعض مولوی  کھڑے ملتے ہیں۔ہمارے یہاں مولویوں کی ایک مٹھی بھر جماعت ہے جو خود نہ نوٹ خواہ ہے نہ خطیب ہے مگر نہ جانے کیوں ان کو لگتا ہے کہ قوم کو متقی و خدا رسیدہ بنانے اور گمراہیت سے بچانے کے لیے جلسہ بے حد ضروری ہے۔اس لیے ناصرف جلسے کی وکالت کرتے ہیں بلکہ جلسہ کروانے میں وہ پیش پیش رہتے ہیں۔جب کہ آج تک پچھلے ستر سالوں میں جلسوں سے ہوۓ نقصانات ہم جھیل رہے ہیں۔جس قوم کو خدا نے ہر پنج شنبہ کے بعد سید الایام کا خطاب دے کر،قومی جمعیت کو دین و دنیا سمجھانے کے لیے جمعہ کا سنہرا دن دے رکھا ہے اسے کسی بھی ایسے جلسے کی ضرورت کب ہے؟

مشتاق نوری 

۲۳؍فروری ۲۰۲۴ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے