Header Ads Widget

رمضان واحترام رمضان


رمضان واحترام رمضان

رمضان واحترام رمضان

(ناصرالدین مظاہری) 

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ مبارک کی تیاری رجب سے ہی شروع فرما دیتے تھے۔ رجب و شعبان میں برکت کی دعائیں بھی کرتے تھے۔ اللھم بارک لنا فی رجب و شعبان وبلغنا رمضان۔ 

یوں تو پورا رمضان المبارک طاعات و عبادات کی بہاریں لے کر آتا ہے چنانچہ رمضان کا چاند دیکھنے کے ساتھ ہی ہم تراویح شروع کردیتے ہیں، تراویح میں بیس رکعتوں میں امام صاحبان اپنی اپنی ترتیب کے مطابق قرآن کریم پڑھتے ہیں۔ 

سہارنپور اس باب میں بڑا پر رونق رہا ہے یہاں عام طور پر روزہ نمازوں کی کثرت دکھائی دیتی ہے، نمازیوں اور روزہ داروں کی تعداد میں خوش گوار اضافہ ہوجاتا ہے۔ ذمہ داران مساجد پہلے سے ہی حفاظ طے کر لیتے ہیں، بہت سے لوگ اپنی دکانوں، مکانوں، شوروم، فیکٹریوں، کارخانوں اور کمپلیکس میں تراویح کا نظام بناتے ہیں۔

 الحمدللہ مسجدوں کے اس شہر میں پورے مہینہ رونق رہتی ہے، شہر میں پینٹ شرٹ والے لوگ بھی سروں پر ٹوپیاں رکھتے ہیں، ان کی گفتگو میں بھی روزہ، رمضان، تراویح، سحری، تلاوت، اعتکاف، عید وغیرہ کا ذکر رہتا ہے اور یہ سب بڑی خوش آئند باتیں ہیں۔ 

بہت سے لوگ دوسرے شہروں، مسجدوں، خانقاہوں کا رخ بھی کرتے ہیں اور خلق خدا فیضیاب ہوتی ہے۔

 شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی کے دور میں ادھر اخیر سال میں طلبہ اپنے گھروں کو روانہ ہوتے تھے ادھر حضرت کے مریدان و مسترشدان مظاہرعلوم کا رخ کرتے تھے ، عید کے موقع پر یہ مریدان اپنے گھروں کو روانہ ہوتے تھے تو ادھر طلبہ چھٹیاں گزار کر اپنے گھروں سے مدرسہ آنے لگتے تھے گویا پورے سال ایک خوبصورت ماحول رہتا تھا، جب تک طلبہ رہتے قال اللہ و قال الرسول کی مسحور کن آوازیں چہاردیواری میں بلند ہوتی رہتیں اور پھر ذاکرین وشاغلین کے الااللہ کی ضربوں سے یہاں کے درو بام روشن منوراور معطرومعنبر ہو جاتے تھے۔ 

آہ! کیسا خوبصورت ماحول تھا، ہر طرف پرنور شکلیں تھیں، تلاوت کا موسم بہار تھا، عشق الھی کا جذبہ مشکبار تھا، تلاوت قرآن تھی، تسبیحات ذوالجلال تھیں، نغمات تو حید تھے، چوبیس گھنٹے یہاں رحمان کی رحمانی اور قرآن کی نورانی یادیں تھیں، باتیں تھیں، حکایتیں تھیں، نصیحتیں تھیں، اوراد تھے، اشغال تھے، معمولات تھے، سحر میں بیدار کرنے کا اور افطار میں متوجہ کرنے کا نظام تھا، کفار کی بھی بڑی تعداد منتظر رمضان ہوا کرتی تھی، بہت سے لوگ روزہ بھی رکھتے تھے، کھلے میں بیڑی سگریٹ پینے سے احتیاط واحتراز کرتے تھے، ہر روزہ دار کی قدر ومنزلت ہوتی تھی، نہ خود بیڑی وغیرہ پیتے تھے نہ دوسروں کو پینے دیتے تھے، کھانے پینے حتی کہ کریانے کی دکانیں بھی بند رہتی تھیں۔ لیکن افسوس! اب کافی تبدیلیاں واقع ہوچکی ہیں، اب خود مسلمانوں میں ہی احترام رمضان نہیں رہا، چنانچہ ایک بس میں ایک صاحب سفر کررہے تھے، رمضان کا مہینہ تھا، دن تھا اور وہ صاحب سرپر ٹوپی، جسم پر اسلامی لباس ہونے کے باوجود کچھ کھارہے تھے، اسی بس میں موجود ایک صاحب کواس شخص کی یہ حرکت اچھی نہیں لگی، غصہ میں اٹھا اس کے سر سے ٹوپی اتار لی اور پھر کہا کہ اب کھا جتنا چاہے کھا، ٹوپی کو کیوں بدنام کررہا ہے۔ 

میں نے اپنے بچپن میں دیکھا کہ کچھ نوجوان کہیں سے ٹی وی لے آئے اب پورے گاؤں میں انھیں کوئی جگہ ایسی نہیں ملی جہاں ٹی وی دیکھ سکیں مجبورا، گنے کے ایک کھیت میں رات کے وقت ٹی وی لے جاکر رکھی اور وہیں اپنا شوق پورا کیا۔

میں ایک دفعہ سہارنپور سے بذریعہ ٹرین سفر کررہاتھا، میرے دائیں بائیں آگے بہت سے غیرمسلم بھی موجود تھے، ایک صاحب کو دیکھا کہ وہ مجھ سے چھپ کر پانی پی رہے ہیں، میں نے کہا کہ آپ بے تکلف پانی پی لیں آپ غیر مکلف ہیں پہلے تو مجھے تکلف اور مکلف کی وضاحت کرنی پڑی پھر پوری بات سمجھائی تو کہنے لگا اجی من ماننے پر تیار نہیں ہوتا، مجھے ایسا لگتا ہے کہ روزہ دار کے سامنے کچھ کھانا پینا گناہ کا کام ہے۔ 

اب موبائل جیسی منحوس چیز ہم اپنے ساتھ لئے پھرتے ہیں اس کا نقصان ٹی وی کے نقصان سے بڑھا ہوا ہے، یہ ہروہ چیز مفت میں فراہم کرتا ہے جس کی  انسان خواہش کرے، نتیجہ یہ ہوا کہ اب ماہ مبارک کی ناقدری ہونے لگی ہے، لوگ رمضان اور غیر رمضان کو ایک کئے ہوئے ہیں۔ حالانکہ انھیں شاید معلوم نہیں ہے کہ رمضان میں جس طرح ہر نیکی اور نیک کام اجر میں بڑھ جاتاہے بالکل اسی طرح اس ماہ میں گناہ کا ارتکاب کرنا عام دنوں کے گناہوں سے بڑھ جاتاہے فإن الحسنات تضاعف فيه ما لا تضاعف فيما سواه ، وكذلك السيئات.

(سات شعبان المعظم ۱۴۴۵ھ)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے