Header Ads Widget

ماہ رمضان المبارک کا استقبال کیسے کریں؟

 ماہ رمضان المبارک کا استقبال کیسے کریں؟


ماہ رمضان المبارک کا استقبال کیسے کریں؟


رمضان: اللہ کا بیش بہا تحفہ

اللہ جل مجدہ نے امت محمدیہ کو متعدد امتیازات و خصوصیات سے نواز کر اس کی جبین شان کو بلند کیا ہے، جن میں سے ایک عظیم خصوصیت رمضان کا مبارک و محترم اور عظیم الشان تحفہ ہے۔ انسان کی معاشرتی زندگی میں تحفے تحائف بڑی اہمیت کے حامل ہیں، باہمی رشتوں کے استحکام اور پیار و محبت کے پاکیزہ اور خوبصورت جذبوں کو توانائی بخشنے میں ان کا خاص کردار ہوتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپس میں تحفے تحائف کا تبادلہ کیا کرو کہ اس سے محبت پیدا ہوتی ہے اور دلوں سے بغض و عناد کا خاتمہ ہوتا ہے۔ (مشکاۃ المصابیح)

انسان کا کسی شخص سے محبت و عقیدت کا تعلق استوار ہوتا ہے تو وہ اسے ہدایا و تحائف بھیج کر اس کے تئیں اپنی محبت و وابستگی کا اظہار کرتا ہے۔ اسی طرح انسان کو اپنے محبوب و پسندیدہ شخص کی جانب سے کوئی تحفہ وصول ہوتا ہے تو وہ اسے قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے دل میں تحفہ دینے والے کے لیے الفت و محبت کا بےپناہ جذبہ ابھر آتا ہے۔

انسان کی اس نفسیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذرا غور کیا جائے کہ اگر تحفہ دینے والی ذات سب سے عظیم و برتر، اعلی و ارفع، محبوب ترین اور سب سے بڑے محسن کی ذات ہو اور تحفے میں دی جانے والی چیز نہایت بیش قیمتی، انمول اور عظیم الشان ہو تو اس کے حوالے سے انسان کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ اس پر مستزاد یہ کہ وہ جلیل القدر تحفہ ہر سال دیا جا رہا ہو تو اسے کس قدر و منزلت اور عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے؟

اللہ تعالی ہر سال تمام مسلمانوں کو رمضان المبارک کا بیش بہا تحفہ عنایت فرماکر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس کے محبوب ترین پیغمبر کی محبوب امت اس کی نظر میں بھی محبوب ہے۔ جب وہ خالق و مالک ہوکر بندوں سے اظہار محبت کرتا ہے تو کیا بندے پر جو سراپا عجز و نیاز اور ہمہ فقر و احتیاج ہے، یہ ذمہ داری نہیں عائد ہوتی کہ وہ بھی اس ذات سے اظہار محبت کرے اور اس کے دیے ہوئے تحفے کی قدر شناشی کرے۔

 اور کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جب اس عظیم تحفے کے ملنے کا وقت آن پہنچے تو انتہائی بےتابی اور پر اشتیاق جذبوں کے ساتھ اس کا انتظار کرے؟ یقینا کرنا چاہیے! پھر ہم محبت کے اس عظیم رشتے کا پاس و لحاظ کیوں نہ رکھیں اور کیوں نہ اپنے محبوب خالق کی طرف سے ملنے والی سوغات کی راہ تکیں۔

 لہذا آئیے ہم اپنے اعمال و اخلاق، اطوار و کردار، حرکات و سکنات، نشست و برخاست؛ غرض ہر ہر چیز سے اللہ تعالی کے لیے محبت کا اظہار کریں؛ تاکہ اللہ کی نگاہوں میں ہم واقعی محبوب بن جائیں اور اس عظیم تحفے کو وصول کرنے کے اہل ہو سکیں کہ تحفے محبوب ہی کو ملا کرتے ہیں۔

رمضان: رب کا محترم مہمان

عربی زبان میں دیکھا گیا ہے کہ رمضان کے ساتھ کریم کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، کریم کے معنی سخی اور فیاض کے آتے ہیں، شاید رمضان کریم کے لفظ کے استعمال میں اس جانب اشارہ ہو کہ رمضان کا مہینہ اللہ تعالی کی طرف سے آیا ہوا ایک سخی اور فیاض مہمان ہے، جو اپنے جلو میں بےشمار رحمتیں، برکتیں اور بخششوں کی ضمانتیں لیکر وارد ہوتا ہے، جو گناہ گاروں کی بخشش کراتا ہے، بخت کے ماروں کی قسمت جگاتا ہے، دلوں میں ایمان و یقین کی شمع جلاتا ہے، بندوں کو بدی سے راہ سے ہٹاکر نیکی کی راہ پر چلاتا ہے، بھولے بھٹکے بندوں کے اندر دین کی طرف بازروی کی تحریک پیدا کرتا ہے، خالق اور بندے کے رشتے کو مضبوط کرتا ہے، دنیا کی بدمستیوں میں غافل رہنے والوں میں عقبی کی دائمی زندگی کی فکر بیدار کرتا ہے، خوف و خشیت الہی سے عاری قلوب میں تقوی کی صفت پیدا کرتا ہے اور نفس کے اسیروں اور شیطان کے نخچیروں کو ان کے قید و بند سے آزاد کر ان کے اندر ان سے لڑنے اور زیر کرنے کی قوت پیدا کرتا ہے؛ غرض رمضان ایک ایسا سخی اور فیاض مہینہ ہے جو اپنے دامن میں خیر ہی خیر لیکر آتا ہے۔

مہمان کے حوالے سے انسان کا کیا رویہ ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں، انسان کی دینی و اخلاقی حالت خواہ کتنی ہی ابتر ہو؛ تاہم مہمان کے ساتھ وہ خوش اخلاقی اور شائستگی کے ساتھ ہی پیش آتا ہے، اس کی عزت و احترام، آؤ بھگت اور تعظیم و توقیر میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا۔ پھر اگر مہمان کوئی خاص ہو معزز و مکرم ہو تو اس کی آمد سے پیشتر ہی اس کے استقبال کی تیاریاں عروج پر پہنچ جاتی ہیں، گھر کی صفائی ستھرائی کا اہتمام کیا جاتا ہے، گھر کی تزئین و آرائش کی جاتی ہے، خوبصورت نشستیں اور بستریں لگائی جاتی ہیں، مختلف انواع کے عمدہ اور لذت انگیز پکوان تیار کیے جاتے ہیں اور پھر بڑی خندہ پیشانی اور محبت آمیز انداز میں مہمان کا استقبال کیا جاتا ہے؛ غرض اس کے اعزاز و اکرام کے لیے ہر ممکن تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں۔

ذرا سوچیے کہ جب عام مہمانوں کے استقبال کے لیے اس قدر تکلف سے کام کیا جاتا ہے تو جو مہمان اللہ کی طرف سے آیا ہو اور اپنے ساتھ خیر کثیر لیکر آیا ہو، جو عظیم الشان ہو نہایت ہی محترم و مکرم ہو اس کے استقبال کے لیے کس قدر تیاریاں کی جانی چاہیے؟

رمضان کریم اللہ کا مہمان ہے؛ لہذا ہمیں اس کا اعزاز و احترام اس کی شان کے مطابق کرنا چاہیے۔ رمضان المبارک کے استقبال کے لیے ہمیں بہت زیادہ تکلف سے کام لینے کی ضرورت نہیں ہے، نہ ہمیں گھر سجانا ہے، نہ کھانا بنانا ہے اور نہ ہی استقبال کے لیے دروازے پہ کھڑے ہونا ہے؛ بلکہ اس مبارک مہمان کے استقبال کے حوالے سے اپنے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک اور پاکیزہ زندگی سے ہی عملی سوغات حاصل کرنی ہے کہ آپ کی کامل زندگی پوری انسانیت کے لیے نمونۂ عمل اور مشعلِ راہ ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی شدت اور بےتابی کے ساتھ اس ماہ مبارک کا انتظار فرماتے تھے اور بڑی دلچسپی کے ساتھ اس کا استقبال کرتے تھے، آپ اس مبارک ماہ کو پانے کے لیے دعائیں بھی کرتے تھے؛ چناں چہ روایت میں آتا ہے، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رمضان کی آمد کا وقت قریب ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ دعا سکھایا کرتے تھے:

اللَّهُمَّ سَلِّمْنِي مِنْ رَمَضَانَ، وَسَلِّمْ رَمَضَانَ لِي، وَتَسَلَّمْهُ مِنِّي مُتَقَبَّلًا. (رواه الطبراني في كتاب الدعاء)

ترجمہ: یا اللہ مجھے رمضان تک صحت و سلامتی کے ساتھ رکھنا، رمضان کو میرے لیے سلامتی کا ذریعہ بنانا اور میری طرف سے اس کو شرف قبولیت عطا فرمانا۔


اسی طرح سلف صالحین کا بھی طرز عمل یہی تھا کہ رمضان کے مہینے کو پانے کی دعائیں کیا کرتے تھے؛ چناں چہ عبدالعزیز بن ابی روداد سے منقول ہے کہ رمضان المبارک کی آمد کا وقت نزدیک آ جاتا تو مسلمان ان الفاظ کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے:


اللهم أظلَّ شهر رمضان وحضر فسلمه لي وسلمني فيه، وتسلمه مني. اللهم ارزقني صيامه وقيامه صبرا واحتسابا، وارزقني فيه الجدَّ والاجتهاد والقوة والنشاط، وأعذني فيه من السآمة والفترة والكسل والنعاس، ووفقني فيه لليلة القدر واجعلها خيرا لي من ألف شهر. (رواه  الطبراني في كتاب الدعاء)


ترجمہ: اے اللہ! رمضان کا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے؛ لہذا اس کو میرے لیے سلامت رکھ، اور مجھ کو اس میں صحت و سلامتی کے ساتھ رکھ اور میری طرف سے اسے قبول فرما۔ اے اللہ! مجھے اس کے روزے اور قیام کی توفیق صبر اور اجر کی امید کے ساتھ عطا فرما، اور مجھ کو اس مہینے میں سنجیدگی، محنت کا جذبہ، طاقت اور مستعدی عطا فرما، اور مجھے اس مہینے میں اچاٹ پن، ضعف، غفلت اور اونگھ سے بچا۔ اور مجھے اس میں شب قدر پانے کی توفیق دے اور اسے ہزار مہینوں سے بہتر بنا۔

ان دو روایتوں سے اس قدر تو اشارہ ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور سلف صالحین رمضان کا بےصبری سے انتظار کرتے تھے اور اس کو پانے کی دعائیں کیا کرتے تھے؛ لہذا استقبالِ رمضان کے حوالے ہمارا پہلا طرز عمل یہی ہونا چاہیے کہ ہمارے دل میں اس مہینے کو پانے کی سچی طلب ہو اور دعاؤں کا اہتمام ہو، ضروری نہیں کہ مذکورہ دو روایتوں میں جو دعا مذکور ہے اسی کا اہتمام کیا جائے؛ بلکہ اپنی طرف سے دعا کے لیے کسی بھی طرح کے الفاظ اختیار کیے جا سکتے ہیں؛ حدیث میں مذکور دعا کو بھی پڑھا جا سکتا ہے؛ تاہم اس کو سنت نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ ہی اس کا التزام کرنا چاہیے؛ کیوں کہ وہ استنادی لحاظ سے کمزور ہیں۔


ماہ شعبان میں روزوں کا اہتمام

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سراپا عبدیت و بندگی کا مجسمہ تھی، آپ کی مسئولیت میں انسانی گروہ کی رہنمائی و انتظام ملکی، امور عامہ کی دیکھ ریکھ اور ترتیب و تنظیم کے علاوہ بےشمار غمہائے روزگار تھے؛ مگر اس کے باوجود آپ کا ذوق عبادت اس قدر بلند تھا کہ آپ شب بھر قیام و سجود میں اپنی محبوب رب سے الحاح و زاری کیا کرتے تھے، آپ علیہ السلام فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کی بھی کثرت فرماتے تھے، یوں تو آپ ہر مہینے؛ بلکہ ہر ہفتے نفل روزوں کا اہتمام فرماتے تھے؛ تاہم جب ماہ شعبان کی آمد ہوتی تو آپ کے روزوں کا اہتمام عروج پر پہنچ جاتا؛ چناں چہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

ما رَأَيْتُ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إلَّا رَمَضَانَ، وما رَأَيْتُهُ أكْثَرَ صِيَامًا منه في شَعْبَانَ. (صحیح البخاری رقم الحدیث ۱۹۶۹)

ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ کو رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے کے مکمل روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، اور میں آپ کو شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی اور ماہ میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ 

اسی طرح ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ إِلَّا شَعْبَانَ وَرَمَضَانَ. (رواه الترمذي)

ترجمہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلسل دو مہینے کے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے شعبان اور رمضان کے۔

اس حدیث سے بظاہر یہ مفہوم مترشح ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام پورے شعبان کا روزہ رکھا کرتے تھے اور شعبان و رمضان کے روزے کو ملا دیا کرتے تھے؛ تاہم عبداللہ ابن مبارک اور دیگر محدثین فرماتے ہیں کہ اس سے مراد شعبان کے اکثر ایام کے روزے رکھنا ہے؛ تاہم علامہ طیبی نے اس مفہوم کو مستبعد سمجھا ہے۔ (تحفۃ الاحوذی)

بہر حال مفہوم جو بھی ہو، اتنی بات تو واضح ہو گئی کہ رسول اللہ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں بہ کثرت روزے رکھا کرتے تھے؛ لہذا ہمیں بھی اس پر عمل کرنا چاہیے، یہ روزے در حقیقت رمضان کے روزے کا پیش خیمہ ہیں، نیز یہ نفل ہی سہی؛ مگر عبادت ہیں اور اس میں سنت کی اتباع بھی ہے، اور اس وجہ سے بھی رکھنا چاہیے کہ ہمارے اندر بھوک و پیاس برداشت کرنے کی قوت اور عادت پیدا ہو جائے اور رمضان کے روزے ہماری طبیعت پر گراں بار ثابت نہ ہو۔

تلاوت و استغفار کا اہتمام

رمضان کی آمد سے قبل تلاوت قرآن اور استغفار کی بھی کثرت کرنی چاہیے؛ کیوں کہ یہ دونوں چیزیں انسان کے قلب و ذہن کی جلا کاری کا کام کرتی ہیں اور ان میں تقوی و طہارت کا نور پیدا کرتی ہیں۔ انسان کے دل کے افق پر جب گناہوں کے ابر سیاہ چھا جاتے ہیں تو وہ قبول حق اور فضائل و برکات کے ادراک کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے؛ اگر رمضان کی آمد سے قبل دل کی دنیا نہ سنواری گئی اور تلاوت و استغفار کے ذریعے اس کے میل کچیل کو دور نہ کیا گیا ہے تو ممکن ہے کہ رمضان کی فضیلتوں اور برکتوں سے صحیح معنی میں بہرہ یاب نہ ہوا جا سکے؛ لہذا ہمیں اس جانب بھی خصوصی توجہ مبذول کرنی چاہیے، نیز ماہ شعبان میں تلاوت و استغفار کی فضیلت کے حوالے سے مستقل روایتیں وارد ہوئی ہیں، جن کو اختصار کے پیش نظر متروک رکھا جاتا ہے۔


رمضان کے فضائل کا علم

انسان فطرتا اسی چیز کی تلاش و جستجو اور حصول میں سرگرداں ہوتا ہے جو اس کی نظر میں اہم اور قدر و قیمت کا حامل ہو، بےقیمت اور بےوقعت چیزوں کی تلاش میں انسان اپنی توانائی ضائع نہیں کرنا چاہتا؛ چناں چہ اگر ہمیں رمضان کی اہمیت اور اس کی فضیلتوں کا صحیح ادراک و احساس نہ ہو تو ہم کسی طور پر ان فضائل سے استفادہ کے لیے خود کو آمادہ نہیں سکیں گے، اور اگر ہمیں ان فضائل و برکات کا علم اور اس کی قدر قیمت کا درست اندازہ ہو جائے تو ہم اپنے اندر ایک طرح کی قوت محسوس کریں گے جو ان فضائل و برکات سے کما حقہ استفادہ کرنے پر ہمیں آمادہ کرےگی۔

لہذا رمضان کی پربہار آمد کے موقع پر ہمیں خصوصی طور پر ان احادیث و آثار پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو اس کے فضائل کے سلسلے میں وارد ہیں، نیز رمضان کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے۔

اس کے علاوہ ہمیں دیگر افراد کو بھی ان فضیلتوں سے آگاہ کرنا چاہیے، علما و خطبا کو خصوصی طور پر اپنے بیانات میں اس موضوع پر کلام کرنا چاہیے، لوگ رسمی طور پر صبح سے شام تک بھوکے پیاسے تو رہتے ہیں؛ مگر حقیقتا وہ اسے کھانے پینے کا مہینہ بنا لیتے ہیں اور عبادات کی طرف خاص توجہ نہیں دیتے ہیں، یہ ایک مشاہداتی امر ہے؛ لہذا لوگوں میں رمضان کے حوالے سے خاص شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ روزہ کے ضروری احکام و مسائل بھی سیکھ لینا چاہیے، کہ روزہ کن چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے؟ کن چیزوں سے مکروہ ہو جاتا ہے؟ تراویح کی نماز کا طریقہ کار کیا ہے؟ شب قدر کیا ہے؟ اعتکاف کیا ہے؟ ان کے فضائل و احکام کیا ہیں؟ اور اس کے علاوہ رمضان اور روزے سے متعلق تمام ضروری احکام سے آگاہی حاصل کر لینی چاہیے؛ تاکہ مکمل طور پر ہم رمضان اور روزے کے لیے تیار ہو جائیں۔

عبدالعلیم دیوگھری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے