Header Ads Widget

نئے سال کی آمد پر یہ مبارک بادیاں کیسی؟

 نئے سال کی آمد پر یہ مبارک بادیاں کیسی؟

نئے سال کی آمد پر یہ مبارک بادیاں کیسی؟

از: غلام رسول جامتاڑوی


اس پر فتن دور میں نہ صرف مسلمان شریعت مطہرہ کے احکامات بھلا بیٹھے ہیں؛ بلکہ غیروں کے طور طریقے کو اپناکر دنیا کی محبت میں مستغرق ہوکر اور بعث بعد الموت کے جملہ مراحل سے صرف نظر کرکے، اپنی تمام تر توجہات کو اس  فانی دنیا کی طرف مبذول کئے ہوئے ہیں، جبکہ خالق کائنات کا فرمان ہے" أفحسبتم أنما خلقنا کم عبثا"  کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم نے تمہیں عبث اور بیکار پیدا کیا ہے، یعنی انسان کی خلقت  اس کرۂ ارض کے اندر ایک خاص منشأ کے تحت ہوئی ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے انسان کو اس کی مقصد خلقت کو بتانے کیلئے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا انتخاب فرمایا جو مختلف ادوار میں آکر ضلالت و گمراہی کے دلدل میں پھنسی ہوئی انسانیت کو اس کے مقصد زندگی کو بتاتے ہوئے خالق کائنات سے آشنا کراتے رہے اور انبیاء و رسل کا یہ سلسلہ چلتا رہا، یہاں تک کہ سب سے آخر میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اب قیامت تلک کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، یقینا آپ کی آمد تو ہوئی ہے آخر میں لیکن آپ کا مقام و مرتبہ جملہ انبیاء و رسل سے اعلی وارفع ہے اوردیگر انبیاء و رسل کی طرح آپﷺ کو بھی ان گنت معجزات عطا فرمائے جن میں سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے، جو رہتی دنیا تک انسانوں  کیلئے رشدو ہدایت کا اثاثہ ہے، جو دستور انسانیت ہے، جس میں ہر طرح کے مریضو ں کیلئے شفا ہے، جس نے ہمارے قلوب کے اندر ایمان کا بیج بویا، جس نے ہمارے افکارو خیالات کی تطہیر کی اور جس نے انسان کے مقصد خلقت کو واضح الفاظ میں بیان کیا " وماخلقت الجن و الانس الا لیعبدون" کہ انسان کا مقصد زندگی اللہ تعالی کی اطاعت و بندگی ہے، لہذا انسان کی کامیابی و کامرانی اسی میں ہے کہ وہ اپنی مختصر سی حیات مستعار کو باری تعالی کی چاہت  کے مطابق صرف کرے۔


لیکن المیہ یہ ہے کہ آج مسلمان اس مقدس کلام کو طاق نسیان پر رکھ کر اپنے نفس امارہ کا غلام بن بیٹھا ہے، جس کے نتیجہ میں مختلف قسم کی معصیات میں مبتلا ہوگیاہے اور ہمارا معاشرہ شراب نوشی، زنا کاری، بدکاری، حرام خوری، چوری ڈکیتی، دھوکہ دھڑی، بدنظری، اور بےحیائی وبےپردگی جیسے سنگین جرائم سے دوچار ہے اورجس معاشرے کے نوجوانوں  کو راست گوئی، امانت داری، سنت کی پاسداری، نماز کی مواظبت، قرآن کی تلاوت، دنیا سے بے رغبتی، باری تعالی کی خشیت، والدین کی اطاعت اور دینی خدمات کے جذبہ سے سرشار ہونا چاہئے، جو نوجوان مستقبل کی تابناکی کا چراغ تھا، جس کا معاشرے کی ترقی میں اہم کردار تھا اورجو مسلم سماج کی طاقت و قوت تھا لیکن حیف در حیف آج یہ نوجوان، ظلمت و تاریکی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہا ہے ہرطرح کے گناہ و عصیاں کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اپنے پیروں تلے روند رہا ہے، اور جن نوجوانوں کی زندگیاں خواب خرگوش میں ایسے گزررہی ہیں جیسے ان کی خلقت کا مقصد محض دنیا طلبی ہے اورہر نئے سال کی آمد پرایک دوسرے کو مبارک بادیاں اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے ان کی حیات مستعار میں سال کا اضافہ ہوا ہے اور ماضی کے تمام ایام احکام خداوندی میں گزرے ہیں حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم اپنی زندگی کا محاسبہ کرتے، اس میں تبدیلی لاتے، سنوارنے کی کوشش کرتے، اللہ کے حضور اپنے گزشتہ تمام گناہوں اور کوتاہیوں پر نادم و شرمندہ ہوکر توبہ کا دروازہ کھٹکھٹاتے-

لہذا اگر ہم فلاح و بہبود کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، تو ہمیں دامن مصطفی صلی اللہﷺ سے وابستہ ہونا پڑےگا، قرآن کریم کو اپنے سینے سے لگانا پڑے گا اور نہ صرف قرآن کریم کی تلاوت کرنا بلکہ اس کے مقتضیات کو عملی زندگی سے مربوط کرنا پڑے گا اور دنیا کی تمام تر آرائشوں اور زیبائیشوں سے بے اعتنائی برتنی پڑے گی اور اگر ایسا نہیں کیا تو پھر ہم دونوں جہاں میں خائب و خاسر ہوں گے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے