Header Ads Widget

طالب علم کی فضیلت حدیث کی روشنی میں

 طالب علم کی فضیلت حدیث کی روشنی میں


طالب علم کی فضیلت حدیث کی روشنی میں


علم اللہ تبارک و تعالی کی بہت عظیم نعمت ہے، علم ایسا نور ہے جو اگر ہو تو بزم حیات روشن اور رنگین ہے اور نہ ہو تو محفل ہستی تاریک و بےرنگ ہے، علم انسانیت کا ایسا زیور ہے کہ جب انسان اس سے آراستہ ہوتا ہے تو اس کے ظاہری و باطنی کمالات جگمگا اٹھتے ہیں، عظمتوں کو بلندی حاصل ہونے لگتی ہے، خوابیدہ صلاحیتیں یک قلم بیدار ہونے لگتی ہیں، پوشیدہ لیاقتیں پردۂ ظہور میں آنے لگتی ہیں، استعداد و قابلیت کو پر لگ جاتے ہیں، کامیابی و فتح مندی قدم چومنے لگتی ہے، الغرض علم ہی وہ جوہر ہے جس سے انسانی محاسن و خوبیوں کا ظہور ہوتا ہے، علم ہی کے توسط سے انسان تعمیر جہاں، خلافت ارضی اور اصلاح انسانیت کا فریضہ سر انجام دے سکتا ہے۔
علم ہی سے انسان اپنی حقیقت سے آشنا ہوتا ہے اور اپنے خالق و معبود کی معرفت سے آگاہی حاصل کرتا ہے، یہ علم ہی کا کمال تھا کہ آدم مسجود ملائک بن گئے، یہ اسی کی جلوہ آرائی تھی کہ خاک کے پتلے کو ہر نوع کی مخلوقات پر فوقیت و برتری حاصل ہوئی۔

علم کی انھی متعدد خصوصیات کی بنا پر دین اسلام نے اسے اپنانے پر اس قدر زور دیا ہے اور قرآن و حدیث میں جا بہ جا علم و طالب علم کی فضیلت و عظمت بیان کرکے اس کے حصول کی ترغیب دی ہے۔ لہذا آئیے ذرا قرآن و سنت کی روشنی میں علم اور طالب علم کی فضیلت کے چند نمونے ملاحظہ کر لیے جائیں۔
اس سے قبل اس امر کی وضاحت کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ علم اور اہل علم کے سلسلے میں وارد جملہ فضیلتیں اس علم کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں انسان کو خالق کی معرفت عطا کرتا ہے، اسے صراط مستقیم پر گامزن کرتا ہے، اس کے اندر عمدہ اخلاق، نیک صفات اور اچھی خوبیاں پیدا کرتا ہے اور جس کی روشنی میں وہ خلافت فی الارض کے فریضے کو ادا کر سکتا ہے۔
ایسا علم جو انسان کا رشتہ خالق سے منقطع کردے، تکبر و سرکشی میں مبتلا کردے، اور جس کی تعلیمات بےحیائی، بداخلاقی اور بےمروتی سکھاتی ہوں وہ ہرگز ہرگز ان فضیلتوں کا حامل نہیں ہو سکتا، اگر صاف اور دو ٹوک لفظوں میں کہا جائے تو یہ فضیلتیں علم دین اور طالب علم دین کے ساتھ مختص ہیں۔
یوں تو علم کی فضیلت پر بہت سی آیات و احادیث ہیں اور لکھنے والوں نے اس پر خوب لکھا ہے، ان تمام کا اس مختصر سی تحریر میں احاطہ نہیں کیا جا سکتا ہے؛ لہذا ہم یہاں خاص طور پر طالب علم کی فضیلت کو نمایاں کرنے کی کوشش کریں گے۔


طالب علم کی فضیلت پر احادیث

طالب علم رحمت الہی کی آغوش میں

اس کائنات میں موجود ہر شی فنا پذیر ہے، ساری چیزیں معلون ہیں، انسان کی تین صنفیں ہی ایسی ہیں جو اس لعنت سے محفوظ ہیں اور رحمت کی مستحق ہیں: ایک تو اللہ تعالی کا ذکر والے، دوسرے اللہ کی پسند کے مطابق عمل کرنے والے اور تیسرے علم والے یا علم طلب کرنے والے۔
جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ مَلْعُونٌ مَا فِيهَا إِلَّا ذِکْرُ اللَّهِ وَمَا وَالَاهُ وَعَالِمٌ أَوْ مُتَعَلِّمٌ. (رواہ الترمذی)
ترجمہ: بےشک دنیا ملعون اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی معلون ہے سوائے اللہ کی یاد کے، اور اس چیز کے جسے اللہ پسند فرماتا ہے، اور علم والے اور علم سیکھنے والے کے۔

اس حدیث پاک میں عالم اور طالب علم کو لعنت سے مستثنی قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے وہ لعنت نہیں؛ بلکہ رحمت کے مستحق ہیں۔

صاحب علم کے عمل کا اجر زیادہ ہوتا ہے

علم کی وجہ سے مومن کے اعمال کا اجر و ثواب بڑھ جاتا ہے؛ کیوں کہ علم کی وجہ سے وہ اپنی نیت کی اصلاح کرتا ہے اور اپنے عمل کو صحیح طریقے سے ادا کرتا ہے، جب کہ بے علم انسان عمل کو بس رسمی طور پر ہی انجام دینا جانتا ہے، اس لیے انسان کو مال کے بجائے علم کی تحصیل پر زیادہ زور صرف کرنا چاہیے؛ کیوں علم کا درجہ مال سے بڑھا ہوا ہے، چناں چہ ذیل میں ایک حدیث کو نقل کیا جا رہا ہے، جس میں انسان کو چار طبقوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور درجے اور مرتبے کے اعتبار سے اس طبقے کو جس کے پاس علم اور مال دونوں ہو اور اس طبقے کو جس کے پاس صرف علم کو برابر قرار دیا گیا ہے،  حدیث کا غور سے مطالعہ کیا جائے۔
حضرت ابوکبشہ انماری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَثَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ كَمَثَلِ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ‏‏‏‏ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا وَعِلْمًا،‏‏‏‏ فَهُوَ يَعْمَلُ بِعِلْمِهِ فِي مَالِهِ يُنْفِقُهُ فِي حَقِّهِ،‏‏‏‏ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ عِلْمًا وَلَمْ يُؤْتِهِ مَالًا،‏‏‏‏ فَهُوَ يَقُولُ‏‏‏‏ لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ هَذَا عَمِلْتُ فِيهِ مِثْلَ الَّذِي يَعْمَلُ،‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏‏‏‏ فَهُمَا فِي الْأَجْرِ سَوَاءٌ،‏‏‏‏ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا وَلَمْ يُؤْتِهِ عِلْمًا،‏‏‏‏ فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ يُنْفِقُهُ فِي غَيْرِ حَقِّهِ،‏‏‏‏ وَرَجُلٌ لَمْ يُؤْتِهِ اللَّهُ عِلْمًا وَلَا مَالًا،‏‏‏‏ فَهُوَ يَقُولُ‏‏‏‏ لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ مَالِ هَذَا عَمِلْتُ فِيهِ مِثْلَ الَّذِي يَعْمَلُقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏‏‏‏ فَهُمَا فِي الْوِزْرِ سَوَاءٌ. (رواہ ابن ماجۃ)
ترجمہ: اس امت کی مثال چار لوگوں کی مانند ہے، ایک (پہلا) وہ شخص جسے اللہ نے مال اور علم سے نوازا ہے، تو وہ اپنے علم کے مطابق اپنے مال میں تصرف کرتا ہے اور اسے حق کی راہ میں صرف کرتا ہے، اور (دوسرا) ایک وہ شخص ہے جسے اللہ تعالی نے علم عطا کیا اور مال نہیں عطا کیا، تو وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس بھی اس شخص کی طرح مال ہوتا تو میں بھی ویسے ہی کرتا جیسا کہ وہ (پہلا شخص) کرتا ہے (یعنی میں بھی مال کو حق کی راہ میں خرچ کرتا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دونوں اجر کے اعتبار سے برابر ہیں۔ 
اور ایک (تیسرا) شخص ایسا ہے جس کو اللہ تعالی نے مال عطا کیا مگر علم نہیں دیا، پس وہ اپنے مال کے سلسلے میں غلط روش کو اپناتا ہے اس کو ناحق خرچ کرتا ہے۔ اور (چوتھا) ایک شخص ایسا ہے جس کو جس کو اللہ نے نہ علم اور مال دونوں چیزیں نہیں دیں، پس وہ کہتا ہے کہ کاش میرے پاس مال ہوتا تو میں اس (تیسرے) شخص تیسرے کی طرح کرتا (یعنی مال کو ناحق خرچ کرتا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دونوں (تیسرا اور چوتھا) برابر کے گناہ گار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: علم کی فضیلت و اہمیت

طالب علم رسول اللہ کی وصیت ہیں

طالب علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت ہیں، آپ علیہ السلام نے ان کے حق میں وصیت فرمائی ہے، چناں چہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
سَيَأْتِيكُمْ أَقْوَامٌ يَطْلُبُونَ الْعِلْمَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُولُوا لَهُمْ‏‏‏‏ مَرْحَبًا مَرْحَبًا بِوَصِيَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَاقْنُوهُمْ. (سنن ابن ماجۃ)
ترجمہ: عن قریب تمہارے پاس کچھ لوگ حصول علم کی غرض سے آئیں گے، لہذا جب تم انھیں دیکھو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق انھیں مرحبا (خوش آمدید) کہو، اور انھیں علم سکھاؤ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت سے معلوم ہوتا ہے طالبان علم کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنا چاہیے، ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرنا چاہیے، ان کی خبرگیری اور دیکھ ریکھ کرنی چاہیے اور انھیں دوسرے لوگوں پر فوقیت دینی چاہیے، نیز اساتذہ اور علما کو چاہیے کہ ان کی تعلیم و تربیت میں محنت و جانفشانی کا مظاہرہ کرے۔

طالب علم کے حق میں رسول اللہ کی دعا

طالب علم کی فضیلت اور مقام و مرتبے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں دعا فرمائی ہے، جیسا کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَبَلَّغَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ غَيْرِ فَقِيهٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ. (سنن ابن ماجۃ)

ترجمہ: اللہ تعالی اس شخص کو تر و تازہ رکھے جس نے میری کوئی حدیث سنی اور اسے دوسروں تک پہنچایا، کیوں کہ بعض علم رکھنے والے فقیہ نہیں ہوتے ہیں اور بعض علم کو اپنے سے زیادہ فقیہ تک پہنچاتے ہیں۔

اس حدیث پاک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کے طالب علموں کے لیے دعا کی ہے کہ اللہ ان کے چہروں میں رونق و شادابی اور تر و تازگی عطا فرمائے، یعنی ان کے ظاہر کو بہتر بنائے اور قدر و منزلت کو بلند کرے۔ یہ دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی ہے؛ لہذا اس کی قبولیت میں شک کی کیا گنجائش ہو سکتی ہے۔


طالب علم کے لیے جنت کی راہ

طالب علم حصول علم کی خاطر جب سفر پر نکلتا ہے اور مشقتوں اور پریشانیوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کر لیتا ہے تو اس پر اللہ تعالی بےحد اجر و ثواب عطا فرماتے ہیں؛ بلکہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
مَن سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فيه عِلْمًا، سَهَّلَ اللَّهُ له به طَرِيقًا إلى الجَنَّةِ. (رواہ الترمذی)
ترجمہ: جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے کسی راہ پر چلتا ہے اللہ تعالی اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں۔

یہ حدیث طالب علم کی فضیلت پر صریح دلالت کرتی ہے، اس سے حصول علم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتنا عظیم الشان اور بلند مرتبت کام ہے۔
اس حدیث میں راستے میں چلنے کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ حقیقی طور پر کوئی انسان علم حاصل کرنے کے لیے کسی سفر پر جائے یا علما کی مجالس میں جائے اور ان سے استفادہ کرے۔
دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ چلنے سے مجازی چلنا مراد ہو، یعنی کوئی شخص کتابوں کی ورق گردانی کرے، قرآن و حدیث کو یاد کرنے اور سمجھنے کی کوشش کرے اور کتابوں کے مباحث میں غور و فکر کرکے علم حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
دونوں مفہوم میں سے جو بھی مراد ہو بہر حال دور حاضر کے طالب علم پر دونوں مفاہیم صادق آتے ہیں اور وہ بجا طور پر اس حدیث کے مصداق بنتے ہیں۔

فرشتوں کا پر بچھانا

طالب علم کی فضیلت اور اس کے مقام و مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ فرشتوں جیسی عظیم، پاک اور معصوم مخلوق ان کے لیے اپنے پر بچھا دیتی ہے؛ چناں چہ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
وإنَّ الملائكةَ لَتَضَعُ أجْنِحَتها لطالب العلم رضًا بما يَصنَع. (رواہ الترمذی)
ترجمہ: اور بےشک فرشتے طالب علم کے لیے اس کے عمل سے خوش ہوکر اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں۔

تمام مخلوق کا طالب علم کے لیے دعا کرنا

اہل علم اور طالب علم کی فضیلت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ کائنات کی ہر مخلوق کو اللہ تعالی نے ان کے حق میں دعا کرنے کے لیے مسخر کر دیا ہے؛ چناں چہ ہر مخلوق عالم اور طالب علم کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتی ہے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
صاحِبُ العِلمِ يَستغفرُ له كلُّ شيءٍ ، حتى الحوتُ في البحرِ. (أخرجه أبويعلى بسند صحيح)
ترجمہ: اہل علم کے لیے ہر چیز مغفرت کی دعا کرتی ہے؛ حتی کہ سمندر میں مچھلیاں بھی اس کے لیے دعا کرتی ہیں۔


رحمت و سکینت کا نزول اور ملائکہ کا احاطہ

یوں تو احادیث میں طالب علم اور علم کی بہت سی فضیلتیں وارد ہیں؛ تاہم یہاں ایک آخری حدیث ذکر کرکے تحریر کو ختم کیا جاتا ہے: 
عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ما اجتمع قوم في بيت من بيوت الله تعالى، يتلون كتاب الله ويتدارسونه بينهم، إلا نزلت عليهم السكينة، وغشيتهم الرحمة، وحفتهم الملائكة، وذكرهم الله فيمن عنده. (صحیح مسلم)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب بھی کوئی قوم کسی گھر میں جمع ہوکر قرآن کی تلاوت کرتی ہے اور آپس میں پڑھتی پڑھاتی ہے ان پر سکینہ نازل ہوتا ہے، رحمتِ الہی انھیں ڈھانپ لیتی ہے اور ملائکہ انھیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالی اپنی مجلس میں فرشتوں کے درمیان ان لوگوں کا تذکرہ فرماتے ہیں۔

یہ حدیث اگر چہ ہر قرآن پڑھنے والے کے حق میں عام ہے؛ طالبان علوم نبویہ بہ جا طور پر اس کا مصداق ہیں؛ کیوں ان کے شب و روز کا مشغلہ ہی قرآن پڑھنا اور سمجھنا ہوتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

تبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!