سفر نامۂ قطر
قسط ۲
از قلم: سید شعیب حسینی ندوی
چھ جنوری کا سورج نمودار ہوا تو میں نے بھائی صاحب (یوسف بن سلمان حسینی) کو کال کی کہ آپ لوگ ابھی تک پہنچے نہیں، جبکہ میرے دوحہ اترنے کے بعد انکا فون آیا تھا کہ وہ دہلی میں جہاز پر سوار ہو رہے ہیں، انہوں نے بتایا بس ابھی ہوٹل پہنچ چکے ہیں نیچے استقبالیہ میں ہیں، چچا ابو (حضرت مولانا سلمان حسینی ندوی مد ظلہ) اور دیگر رفقاء کی فلائٹ دہلی سے تھی اور علی الصبح پہنچنے والی تھی، اس لیے میں بھی وہاں پہنچنے کے بعد سے منتظر تھا، فورا کمرہ سے نیچے ہال میں اتر کر آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بڑا قافلہ انتظار ہال میں موجود ہے کیونکہ ہوٹل کے رجسٹریشن اور کمرے تیار کرنے میں کچھ تاخیر ہورہی تھی اس لیے سب وہیں براجمان تھے، بڑھ کر میں نے سب سے پہلے چچا ابو سے مصافحہ و معانقہ کیا پھر بھائی صاحب کے علاوہ استاد محترم مولانا مجیب الرحمان عتیق ندوی، مولانا عبد الغفار ندوی بھی تھے، دہلی سے محی الدین غازی اور کچھ افراد تھے، دوسری طرف کیرالہ کا وفد بھی اسی وقت پہنچا ہوا تھا، جامعہ اسلامیہ شانتاپورم کے رئیس ڈاکٹر عبد السلام، الیاس مولوی، سلیم ندوی اور وایناڈ کے ڈاکٹر یوسف ندوی وغیرہ سے بھی وہیں ملاقات ہو گئی، ہوٹل کی کاروائی میں دیر ہوتی جارہی تھی، اور یہ حضرات رات بھر کا سفر کر کے آئے تھے اور تھکے ہوئے تھے، وہاں موجود نشستوں پر بیٹھ کر خوشگوار بات چیت کا سلسلہ چلتا رہا اور وقفہ وقفہ سے مہمان کمروں میں منتقل ہونے لگے، میں نے بار بار چچا ابو سے کہا کہ جب تک کاروائی چل رہی ہے آپ میرے کمرے میں آرام فرما لیں لیکن وہ سوچ رہے تھے کہ اپنے کمرے میں جاکر ہی اطمنان سے استراحت کر لیں گے، آٹھ بجے کے قریب پہلی منزل پر جو ہوٹل کا ریسٹورانٹ تھا اس میں جا کر ناشتہ کیا، انواع و اقسام کے عربی کھانے تھے، میں نئے نئے پکوان چکھنے کا شوقین ہوں تو متنوع چیزیں کھا کر دیکھیں، اور مزہ سمجھ آیا کہ اگلے دنوں میں کیسے انتخاب کیا جائے گا، ہم نے چچا ابو کے ساتھ ناشتہ کیا پھر نیچے آئے تو معلوم ہوا ابھی مزید کچھ وقت لگے گا تو میں نے باصرار چچا ابو کو اپنے کمرے میں تشریف لا کر آرام کرنے پر آمادہ کیا، وہ آرام کرنے میرے کمرہ میں تشریف لے گئے، میں بھائی صاحب یوسف نیچے گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ دو کمرے تیار کر کے ہمیں دیے گئے جب تک سارے ہی مہمان اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے، میں اور بھائی صاحب بارہویں منزل پر چلے گئے اور بستر پر کمر سیدھی کی، بارہ بجے کے بعد میں چودہویں منزل پر اپنے کمرے میں گیا چچا ابو اٹھ چکے تھے، وہ کہنے لگے کافی تھکن تھی اور رات نیند نہیں ہوئی تھی، یہاں اچھی نیند ہوگئی اور آرام ملا، میں نے کہا آپ چاہیں تو یہیں قیام رکھیں دوسرے کمرے میں میں منتقل ہو جاؤں گا، لیکن وہ کمرہ بھائی صاحب کے کمرے سے ملا ہوا تھا اور لفٹ کے بازو میں تھا اس لیے چچا ابو کو وہاں زیادہ سہولت محسوس ہوئی تو وہیں تشریف لے آئے، پھر ہم نے ظہر کی نماز ادا کی اور وہی ریسٹورنٹ میں ظہرانہ ادا کیا، افتتاحی نشست چونکہ شام سات بجے تھی اس سے وقفہ مل گیا تھا مزید آرام کرنے کا، کھانا کھا کر کمرے میں آتے ہوئے چچا ابو نے مولانا مجیب صاحب سے دریافت کیا کہ مولانا سجاد نعمانی صاحب بھی آچکے ہیں یا نہیں، وہ ایک روز پہلے دوحہ آگئے تھے لیکن کسی تعلق والے کے گھر پر مقیم تھے اور اس ہوٹل میں آج ہی آئے تھے، بتایا گیا وہ یہاں آچکے ہیں تو چچا ابو نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور ہم ان کے کمرے میں حاضر ہوگئے، پھر دونوں بزرگ بڑی گرمجوشی سے ملے اور پرانی یادوں کو تازہ کرتے رہے، عالمی حالات اور خاص طور پر غزہ پر گفتگو ہوئی مستقبل کے امکانات اور اندیشوں پر تبادلۂ خیال ہوا، باتوں باتوں میں چچا ابو نے ذکر کیا کہ جزیرۃ العرب کے زمانۂ طالبعلمی میں جب مدینہ میں ہم آپ ساتھ تھے تو تعلیم مکمل کر کے ملک واپس جاکر کام کرنے کے حوالہ سے بات چیت ہوتی تھی، مل کر بڑے عزم و حوصلہ کے ساتھ ملی کاز کے لیے خدمات انجام دینے کا عہد ہوتا تھا اور بطور خاص یہ فکرہ میں نے پیش کیا تھا اور آپ نے اس کی تائید کی تھی اور اتفاق کیا تھا کہ ہم تین بڑی عالمی تحریکوں تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی اور الاخوان المسلمین کے درمیان پل بنائیں گے، آپس میں اتحاد و یگانگت پیدا کریں گے اور ملت کی شیرازہ بندی کی مہم چلائیں گے، بہرحال یہ کام آج بھی کرنے کی ضرورت ہے، اس پر مسرت و پر کیف نشست کے بعد بغرض آرام ہم اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
مغرب ادا کر کے ہمیں پروگرام ہال جانا تھا، اتحاد کی ساری نشستیں شیراٹون ہوٹل کی کانفرنس ہال میں طے کی گئی تھیں جو کہ ہمارے ہوٹل سے آدھے کلو میٹر کے ہی فاصلہ پر ہوگا، یہاں سے جانے کے لیے بسوں کا نظم تھا اور اکابر کے لیے گاڑیاں بھی مہیا تھیں، مولانا سجاد صاحب گاڑی سے روانہ ہوئے اور دوسری گاڑی عزیزم سلمان مبشر سلمہ لے آئے تھے تو چچا ابو اور ہم لوگ اس سے شیراٹون چلے گئے، اس عالیشان ہوٹل کے مرکزی دروازے سے داخل ہو کر بل کھاتے دالان کی راہداری کو عبور کرتے ہوئے ایک ہال کے سامنے ہم نکلے وہاں ممبران اور مہمانوں کو کارڈ تقسیم کیے جا رہے تھے اور لوگوں کا ہجوم تھا، ہم کمرے میں داخل ہوئے اور تلاش کر کر کے اپنے اپنے کارڈ حاصل کرلیے، چونکہ مولانا سجاد صاحب مد ظلہ مدعو خصوصی تھے تو انکا بھی کارڈ دوسرے کاؤنٹر سے حاصل کر لیا گیا تھا، اب آگے کا جو داخلہ تھا وہاں کارڈ کے بغیر انٹری نہیں تھی، یہاں سے داخل ہوتے ہی راہداری کے دونوں جانب غزہ کے دلخراش مناظر کی تصاویر آویزاں کی گئی تھیں جو عجیب کیفیت ہمارے اندر پیدا کر رہی تھیں، راہداری سے گزر کر جوں ہی ہم کانفرنس ہال کے بیرونی دالان میں داخل ہوئے تو وہاں بڑے نامور سوڈانی عالم اور خطیب بے مثال شیخ عصام البشیر بیٹھے ہوئے تھے، وہ چچا ابو کو دیکھتے ہی اٹھے اور سلام و معانقہ کیا، ہم نے بھی بڑھ کر سلام کیا، پائے کے قلمکار، بڑے مورخ اور مشہور ادیب شیخ علی محمد صلابی سے بھی باہر ملاقات ہوگئی، عمان کے مفتی عام شیخ احمد خلیلی کے فرزند شیخ افلح بھی ملے اور کئی اہل علم و فضل کانفرنس ہال کے باہر ہی ملے سب سے ملاقات اور تعارف کا شرف حاصل ہوتا رہا۔
کانفرنس ہال میں ہم داخل ہوتے ہیں اور خصوصی نشستیں جو مجلس عاملہ کے ممبران کے لیے مختص تھیں وہاں چچا ابو بیٹھ جاتے ہیں اور چونکہ آس پاس کی نشستیں خالی تھیں تو ہم اور بھائی صاحب یوسف وہیں بیٹھ گئے، باقی حضرات اور مولانا سجاد صاحب دوسری جانب نشستوں پر آگئے۔
میں نے اگلی نشست پر دیکھا کہ سابق صدر اتحاد شیخ احمد ریسونی جلوہ افروز ہیں تو بڑھ کر میں گیا معانقہ کیا اور کچھ بات چیت کی، پھر اپنی نشست پر آکر بیٹھ گیا، دوسری طرف نظر پڑی تو دیکھا پاکستان کے قاری محمد حنیف جالندھری صاحب جو کہ وفاق المدارس کے سکریٹری ہیں وہ تشریف فرما تھے، ان سے بھی تعارف ہوا اور دوبارہ ملنے کا وعدہ بھی۔
پروگرام کا آغاز نامور مصری قاری شیخ احمد عیسی معصراوی کی تلاوت سے ہوا، ان کی تلاوت میں نے پہلے بھی سنی ہوئی تھی لیکن براہ راست سن کر بڑا وجد وکیف آیا، ان کی کافی عمر ہو چکی ہے لیکن تلاوت میں ٹھیراؤ اور آواز میں کھنک اور لہجہ کی حلاوت آج بھی باقی ہے۔
اس اجلاس کی صدارت مجلس کی سب سے بزرگ اور عمر رسیدہ ہستی شیخ عبد الرزاق قسوم کو سپرد کی گئی، ان کا مختصر خطاب ہوا اور سب کا استقبال کیا گیا، پھر اتحاد کی چار سالہ کارگزاری پر ایک فیلم کے ذریعہ اسکرین پر دکھائی گئی، کہ علمی، فکری، دعوتی اور سماجی کاموں میں جو کام انجام دیے گئے ہیں ان سے آگاہی دلائی گئی، پھر اتحاد کے کارگزار صدر انڈونیشیا کے مشہور عالم اور سابق وزیر سماجی امور شیخ حبیب سالم سقاف جفری (شیخ احمد ریسونی کے استعفے کے بعد ان کو مدت پوری ہونے تک صدر منتخب کیا گیا تھا) کا خطاب ہوا اور انہوں نے اتحاد کی خدمات کا ذکر کرنے کے ساتھ فلسطین اور غزہ کے حالات کا بھی ذکر کیا کہ ایسے نازک وقت میں یہ کانفرنس منعقد ہو رہی ہے، صدر کی گفتگو کے بعد جو خطاب تھا وہ نائب صدر شیخ عصام البشیر کا تھا، ان کی تقریر کیا تھی، بیان کا جادو تھا، "ان من البیان لسحرا" کی جیتی جاگتی تصویر تھی، سب مبہوت ہو کر سن رہے تھے، جملے جچے تلے، مضامین کا خوبصورت انتخاب، تعبیرات و استعارات کا حسین امتزاج، ادب و خطابت کا منفرد طرز، ایسا لگتا کہ یہ بولتے رہیں اور ہم سیراب ہوتے رہیں، اسلام کی وسطیت اور فکر و دعوت کے اعتدال اور اتحاد کی امتیازی خصوصیات پر روشنی ڈالتے رہے (محترم عادل یمنی کے بقول شیخ یوسف القرضاوی کہتے تھے کہ وسطیت کو میں نے مرکزی نقطہ کی حیثیت سے پیش کیا ہے لیکن وسطیت کی زبان شیخ عصام ہیں وہ مجھ سے بہتر اس پر بیان کرتے ہیں) اس کے بعد جب گفتگو کا رخ انہوں نے غزہ کی طرف موڑا تو جگر نکال کر شیخ نے رکھ دیا، ابھی تک انکا یہ جملہ کان میں گونج رہا ہے "سلام علی غزہ فوق الارض، سلام علی غزہ تحت الارض، و سلام علی غزہ یوم العرض"، پورا مجمع ان کے جوش خطابت سے سرشار ہو کر نعرے بلند کرنے لگا۔
پھر کچھ مہمانوں کے کلمات تھے، کیونکہ دوسرے نائب صدر شیخ احمد خلیلی ناتوانی کی وجہ سے تشریف نہیں لا سکے تھے تو ان کے فرزند شیخ افلح نے انکا تحریری پیغام پڑھ کر سنایا، اخیر میں اتحاد کے جنرل سیکرٹری مقیم حال قطر مشہور عراقی کُردی عالم و فقیہ ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی کا خطاب ہوا، واقعہ یہ ہے کہ اتحاد کو آگے بڑھانے اور سرگرم کرنے میں آپ کا بڑا ہاتھ ہے، شیخ نے اتحاد کی چار سالہ رپورٹ اور علمی و فقہی اور دعوتی و ملی کاموں کا جائزہ پیش کیا، اس اتحاد کے بانی شیخ یوسف القرضاوی رحمہ اللہ کو بھی یاد کیا، اور غزہ کے حالیہ قضیہ پر جو کچھ اتحاد نے مواقف اختیار کیے اور اس کو وقت کے سب سے اہم مسئلہ کی حیثیت سے پیش کیا اس پر بھی توجہ دلائی، پھر اخیر میں شیخ قرضاوی کے فرزند کو اعزازی شیلڈ دی گئی اور یہ افتتاحی نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔
پھر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا، شیخ علی قرہ داغی اور شنقیط کے مشہور و معروف عالم شیخ محمد حسن ددو سے بھی ملاقات کا شرف ملا، ہم چچا ابو کے ساتھ ہال سے نکلے تو افغانستان، ترکی، سریلنکا، عراق اور کئی ملکوں کے نمائندے جو حاضر تھے ان میں کچھ پرانے ندوی فضلاء بھی تھے ان سے بھی ملاقات ہوتی رہی۔
پھر ہم باہر آئے اور اپنے ہوٹل کی طرف نکل پڑے جہاں پہنچ کر عشائیہ تناول کیا اور اپنے اپنے کمروں میں جا کر آرام کرنے لیٹ گئے۔
اس طرح یہ پہلا دن زندگی کا ایک قیمتی یاد گار دن بن کر گزر گیا، میں اللہ کے حضور میں شکر ونیاز کے کلمات ادا کرتا رہا کہ اس بے مایگی و نا اہلی کے باوجود اتنے بڑے مقام تک پہنچایا اور عالم اسلام کی چنندہ ہستیوں سے ملایا، انہی لمحوں کو دل میں بساتے بساتے نیند نے اپنے آغوش میں لے لیا۔
0 تبصرے
تبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!