Header Ads Widget

مدارس و مکاتب کا قیام کیوں ضروری ہے؟

 مدارس و مکاتب کا قیام کیوں ضروری ہے؟

مدارس و مکاتب کا قیام کیوں ضروری ہے؟


از: غلام رسول جامتاڑوی


یہ ایک نا گزیر حقیقت ہے کہ جس قریہ میں مدرسے کا وجود ہوتا ہے، وہاں کے افراد اکثرو بیشتر پڑھے لکھے ہوتے ہیں، وہاں کے باشندوں کے اخلاق و عادات اور ان کے افکارو خیالات نہایت عمدہ ہوتے ہیں، مسجدیں آباد ہوتی ہیں، پورا گاؤں چہل پہل اور بارونق نظر آتا ہے اور خصوصا وہاں کے لوگوں میں دینی جذبات، تمیزداری، سلیقہ مندی اور شائستگی و شعورداری نمایاں طور پر  پائی جاتی ہے، اور اس مدرسے کا فیض نہ صرف اس بستی تک محدود رہتا ہے، بلکہ اس کے قرب و جوار میں آباد بستیوں تک بھی جا پہنچتا ہے۔


           نیزمدارس اسلامیہ کی سب سے بڑی دین یہ ہوتی ہے کہ یہ انسان کو انسانیت فراہم کرتے ہیں، حقیقی خالق ومالک سے آشنا کراتے  ہیں، مرنے کے بعد پیش آنے والے حالات سے باخبر کرتے ہیں اور ہر نفع و ضرر سے جڑی چیزوں کا پتہ دیتے ہیں، اس کے بر عکس جو قریہ مدارس و مکاتب اور کسی بھی طرح کے دینی اداروں سے خالی ہوتا ہے اور اس کے آس پاس میں بھی کوئی دینی ادارہ نظر نہیں آتا ہے تو اکثر وہاں جہالت عروج پر ہوتی ہے، بدعات و خرافات پھیلی ہوئی ہوتی ہیں، عداوت و دشمنی اور خون خرابی کا بازار گرم ہوتا ہے، ناہنجار و اوباش قسم کے نوجوانوں کی اکثریت ہوتی ہے، بے شرمی و بے غیرتی کا دور دورہ ہوتا ہے، مسجدیں غیر آباد ہوتی ہیں، اللہ و رسولﷺ کی سنتوں کو پیروں تلے روندا جاتا ہے اور لوگ حرام چیزوں کے مرتکب اور اپنی خواہشات کے پیرو کارہوتے ہیں۔


         لہذا مسلم زعما اور علمائے کرام کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں تدبر کریں اور اپنے محلے میں یا قرب و جوار کے گاؤں میں مدارس و مکاتب قائم کرنے کی فکر کریں اوربالخصوص جو لوگ ان دینی ادروں سے  وابستہ ہیں اور وہ دینی خدمات کو بہ خوبی انجام دے رہے ہیں، ان کی قدر کریں، ان کا سہارا بنیں، ان کے دینی جذبات و احساسات کو سراہیں، ان کی ہرضروریات کی تکمیل کے لیے پیش پیش رہیں، اور اگر آپ ایسا نہیں کرسکتے تو کم از کم آپ کی وجہ سے مدرسے کو اور مدرسے کے ذمہ داران کو کوئی ایسا ضرر نہ پہنچے کہ جو آپ کے گاؤں میں موجود مدرسے کے انسداد کا اور  چراغ علوم نبوت کے گل ہوجانے کا سبب بن جائے اور جو نہ صرف آپ کو بلکہ آپ کی آنے والی نسلوں کو بھی علوم نبوت سے فیضیاب ہونے سے محروم  کردے، اور راقم الحروف کو اس کا مشاہدہ ہے، جس مدرسے میں میری تعلیم کا آغاز ہوا تھا جو میری تعلیم و تربیت کا اول منبع و سر چشمہ تھا، جو مدرسہ جامتاڑا ضلع کے اندر علم دین کی خدمات میں زبردست کردار ادا کرہا تھا اور جس سے بہت سے تشنگان علوم نبوت سیراب ہورہے تھے اور جس کا فیض عام تھا، لیکن افسوس صد افسوس کچھ نادانوں کی نادانی اور ناہل ذمہ داروں کی وجہ سے اس مدرسے پر ایسا زوال آیا کہ وہ مکمل طور پر مقفل ہوچکا ہے، اس کے درو دیوار بوسیدہ اور دیمک زدہ ہو چکے ہیں، آج وہ مدرسہ خون کے آنسوں رو رہا ہے، جس کا آج کوئی پرسان حال نہیں ہے؛ لہذا ہمیں خواب خوگوش سے بیدار ہوکر ان جملہ امور کے بارے میں انتہائی غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے...

باری تعالی عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین!

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے