Header Ads Widget

دینی تعلیم کی ضرورت و اہمیت

 دینی تعلیم کی ضرورت و اہمیت


دینی تعلیم کی ضرورت و اہمیت


قرآن و سنت دین اسلام کی اساس و بنیاد ہیں،ان کی تعلیم وتشریح اور اشاعت و حفاظت مسلمان کی اپنی ذمہ داری ہے،جب تک اسلامی حکومتوں کا دورِ عروج رہا یہ ذمہ داری عوامی اور حکومتی دونوں سطح پر بحسن و خوبی انجام پاتی رہی،چناں چہ اس دور میں مسلمان علم وعمل اور عقائد و احکام میں نہ صرف یہ کہ پختہ تھے، بلکہ وہ اس حوالہ سے ہمیشہ فکر مند رہا کرتے تھے،فکر صرف اپنی نہیں، بلکہ ان کی فکر کا محور بیوی بچے اور دیگر اہلِ خانہ بھی ہوا کرتے تھے،اپنی موت کے وقت دین و ایمان پر جمے رہنے کی تاکید اور وصیت کرنا نہیں بھولتے تھے،قومی اور ملی اعتبار سے ایسا ماحول تھا کہ مسلمانوں کی دینی تعلیم اور ایمانی تربیت کے لیے مکاتب و مدارس کے ساتھ تربیت گاہوں کا مستحکم نظام تھا،خلافتِ راشدہ کا وہ بابرکت دور فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ علم وعمل، صلاح و تقوی، فقروزہد اور اخوت و مساوات کے لحاظ سے وہ انسانیت کا تاب ناک دور تھا، جس کے آثار و برکات نے عرصہ دراز تک دنیا کو منور رکھا،بعد کے دور میں مسلمان حکم رانوں کی عملی زندگی اگرچہ مجروح ہوتی چلی گئی ،لیکن اعتقادی پہلو ہمیشہ محفوظ رہا،بہت سے اسلامی ممالک میں یہ سلسلہ ابھی بھی قائم ہے،جس کی وجہ سے وہاں کے لوگ دین دار،ایمان دار،تقوی شعاراور نیک انسان بھی ہوتے ہیں اور کم ازکم اسلام وکفر اور توحید و رسالت کی حقیقت سمجھتے ہیں۔


ہمارے ملک ہندوستان میں مسلمانوں کے عقائد و اعمال اوران کے مذہبی تشخصات کی حفاظت میں سب سے اہم رول مدارس،مساجد اور خانقاہوں نے انجام دیا ہے،اسلامی حکومتوں کے زوال کے بعد شعائرِ دین کی بقا انہی اسلامی قلعوں کی مرہونِ منت ہے،بالخصوص دینی مدارس کی برکت سے ملک میں دین کا شعور اور خدا پرستی کا احساس کسی نہ کسی درجہ میں بیدار ہے،اس کے علاوہ تبلیغی جماعتوں کے پیارومحبت سے کلمہ طیبہ اور نماز پڑھوانے کی غرض سے تبلیغی دورے،احکام شرعیہ اور مسائل دینیہ بتلانے کے لیے دارالافتاؤں کا قیام اور معاشرتی و عائلی مسائل کے حل کے لیے دارالقضاؤں کی خدمات بھی دینی بیداری کے حوالہ سے قابل ذکر ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ایک دور ایسا بھی آیا کہ غیروں کے ساتھ بعض اپنوں کی طرف سے بھی دینی علوم،مدارس دینیہ اور علماء کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا اور یہ شوروغوغا برپا کیا گیا کہ مذہب اور دینی علوم جدید ترقیات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں،علماء ِ دین ملک وملت کی ترقی اور استحکام بلکہ سالمیت کے سب سے بڑے دشمن ہیں،مدارس اسلامیہ عصری تقاضوں کے خلاف فتنہ و فساد کے مراکز ہیں،نیز یہاں کی تعلیم معاشی اعتبار سے انسان کو خوش حال زندگی عطا کرنے سے قاصر ہے۔اس زہر کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں نے اپنے بچوں اور بچیوں کو مدارس، مساجد، مکاتب،تبلیغی جماعت اور خانقاہوں سے نہ صرف یہ کہ روک لیا، بلکہ ان سے بدگمان بھی رہنے لگے۔نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ بے دینی،بد دینی،دین بے زاری،ارتداد،الحاد اور خرابیٴ عقائد کے دل خراش واقعات ہمارے سامنے آنے لگے،جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔


اب مسلمانوں کی صورت حال اس قدر خراب ہے کہ دینی تعلیم پر انگریزی تعلیم کو فوقیت دے دی گئی ہے،ایسے کتنے بچے یا بچیاں ہیں کہ وہ کبھی مکتب نہیں گئے،مدارس کا کبھی رخ نہیں کیا،جس کی وجہ سے ان کی ساری زندگی گزر جاتی ہے، مگر صحیح طرح سے قرآن مجید پڑھنا نہیں آتا۔ طہارت اور وضو وغسل کے مسائل معلوم نہیں ہوتے ، نماز کے فرائض وواجبات، تشہد ودرود ، دعائے قنوت اور دیگر ذکر واذکار ٹھیک طرح پڑھنا نہیں جانتے ۔ بلکہ کتنے ایسے لوگ ہیں جو دنیوی علوم و فنون کے ماہر ہیں ، مگر نمازوں کی تعدادِ رکعت کا بھی انھیں علم نہیں ہے۔ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر ہم نے معیار زندگی کو بہتر اور بلند کرنے کی فکرتوکی ہے لیکن آخرت کی ابدی زندگی کو بہتر بنانے اور روز محشر کی ہول ناکیوں سے نجات کی کوئی فکر نہیں کی ۔دیگر اقوام کی طرح دنیا کی چند روزہ زندگی کو ساری سرگرمیوں کا مرکز بنالیا ہے ۔ موت کے بعد کی زندگی کا ہمیں کوئی احساس نہیں۔ یہ ایمان ویقین کے نہایت کمزور ہونے اور آخرت سے منھ موڑ لینے کا واضح ثبوت ہے اور ان سب کی وجہ مدارس و مکاتب سے دوری اور ان سے بدگمانی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے