Header Ads Widget

ہابیل اور قابیل کا قصہ| تاریخ انسانی کا پہلا قتل

 ہابیل اور قابیل کا قصہ


ہابیل اور قابیل کا قصہ


ابوالبشر سیدنا آدم علیہ الصلوۃ والسلام کے دو بیٹوں کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے، قرآنِ کریم میں ان کا نام صراحتا مذکور نہیں ہے؛ بلکہ (ابني آدم ) (آدم کے دو بیٹے) کہہ کر ان کی جانب اشارہ کر دیا گیا ہے؛ البتہ تورات میں ان کا نام ہابیل اور قابیل مذکور ہے۔
ان دونوں کے واقعے سے متعلق حضرت عبداللہ ابن مسعود اور دیگر صحابہ کرام سے روایت منقول ہے، جس کا مضمون یہ ہے کہ نسلِ انسانی کی افزائش کے حوالے سے حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت کا دستور یہ تھا کہ حضرت حوا کے بطن سے جو توأم (جڑواں) اولاد (بیٹا اور بیٹی) پیدا ہوتی ان کا نکاح دوسرے بطن سے پیدا ہونے والی توأم اولاد سے کردی جاتی تھی، اسی ضابطے کے مطابق ہابیل و قابیل کا نکاح ہونا طئے ہوا تھا، اس طور پر کہ ہابیل کی ہمشیرہ کا نکاح قابیل کے ساتھ اور قابیل کی ہمشیرہ کا نکاح ہابیل کے ساتھ ہو، قابیل کی ہمشیرہ ہابیل کی ہمشیرہ سے زیادہ حسین و جمیل اور خوبصورت تھی، اس لیے قابیل کو یہ بات سخت ناگوار گزری کہ اس کی خوبرو ہمشیرہ سے دستور کے مطابق ہابیل نکاح کرلے؛ چناں چہ اس بات کو لیکر ان دونوں کے درمیان معاملہ کھڑا ہو گیا، حضرت آدم علیہ السلام نے معاملہ کو ختم کرنے کے لیے یہ تجویز رکھی کہ تم دونوں اللہ کے حضور اپنی اپنی قربانی پیش کرو جس کی قربانی مقبول ہوگی اسی کی بات پوری کی جائےگی۔
تورات کی تفصیل کے مطابق اس دور میں قربانی کا یہ طریقہ رائج تھا کہ نذر و قربانی کی چیز کسی بلند مقام یا چوٹی پر رکھ دی جاتی، پھر آسمان سے آگ آتی اور قربانی کو جلا ڈالتی، آگ کا جلانا ہی مقبولیت کی علامت تھی۔
چناں چہ حسبِ ہدایت ہابیل نے اپنے ریوڑ میں سے عمدہ قسم کا دنبہ منتخب کرکے بارگاہِ الہی میں بہ طور قربانی پیش کی، ادھر قابیل نے بھی اپنے غلوں میں سے ردی قسم کا غلہ اٹھاکر قربانی کے لیے پیش کی، آسمان سے آگ نمودار ہوئی اور ہابیل کی قربانی کو جلا دیا اور یوں ہابیل کی قربانی شرفِ قبولیت سے ہمکنار ہو گئی اور قابیل کی قربانی قبول نہیں کی گئی۔
قابیل کی نیت میں ویسے ہی کھوٹ تھا، چناں چہ قربانی کے قبول نہ ہونے کو اس نے اپنی توہین سمجھی جس کے نتیجے میں اس کے سینے میں انتقام کی آگ جلنے لگی۔
چناں چہ قابیل نے ہابیل کو دھمکی دی کہ تمھیں قتل کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھوں گا؛ تاکہ تم اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکو، ہابیل چوں کہ نیک طینت اور فرمان بردار تھا؛ چناں چہ انھوں نے کہا کہ تمہاری جو مرضی آئے کرو میں تم پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا، اور تمہاری قربانی قبول نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تمہاری نیت میں فتور تھا اور اللہ تعالی بدنیتوں کی قربانی قبول نہیں فرماتے۔
ہابیل کی ان مصلحانہ باتوں سے قابیل کا غیض و غضب مزید انگیز ہو گیا، بالآخر اس نے ہابیل کو قتل کرکے اپنے انتقام کی آگ کو سرد کیا۔
قتل کے بعد قابیل کو تشویش لاحق ہوئی کہ اپنے بھائی کی نعش کا کیا کیا جائے؟ کیوں کہ یہ انسان کی پہلی موت تھی اور مُردوں کے متعلق کوئی حکم الہی بھی نازل نہیں ہوا تھا، قابیل اسی شش و پنج میں تھا کہ یکایک اس کی نگاہ ایک کوّے پر پڑی جو اپنی چونچ سے زمین کو کرید کر اس میں گڑھا کر رہا تھا، بعض روایات میں یہ آتا ہے کہ اس کوے نے گڑھا کھود کر اس میں دوسرے مردار کوے کو دفن کیا، قابیل نے اس منظر کو دیکھا تو سر پیٹ کر رہ گیا اور اپنی عقل پر ماتم کرتے ہوئے کہنے لگا کہ کیا میں اس جانور سے بھی گیا گزرا ہوں کہ ایک جرم کو چھپانے کی بھی مجھ میں صلاحیت نہیں۔
چناں چہ کوے سے سبق حاصل کرکے قابیل نے گڑھا کھودا اور اپنے بھائی ہابیل کو اس میں دفن کر دیا۔
قرآن کریم میں اس واقعے کا ذکر اس طور پر ہے:

وَاتۡلُ عَلَيۡهِمۡ نَبَاَ ابۡنَىۡ اٰدَمَ بِالۡحَـقِّ‌ۘ اِذۡ قَرَّبَا قُرۡبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنۡ اَحَدِهِمَا وَلَمۡ يُتَقَبَّلۡ مِنَ الۡاٰخَرِؕ قَالَ لَاَقۡتُلَـنَّكَ‌ؕ قَالَ اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الۡمُتَّقِيۡنَ ۞
لَئِنۡۢ بَسَطْتَّ اِلَىَّ يَدَكَ لِتَقۡتُلَنِىۡ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ يَّدِىَ اِلَيۡكَ لِاَقۡتُلَكَ‌ ۚ اِنِّىۡۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ۞ إِنِّىۡۤ اُرِيۡدُ اَنۡ تَبُوۡٓءَ بِاِثۡمِىۡ وَ اِثۡمِكَ فَتَكُوۡنَ مِنۡ اَصۡحٰبِ النَّارِ‌ۚ وَذٰ لِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِيۡنَ‌ ۞ فَطَوَّعَتۡ لَهٗ نَفۡسُهٗ قَـتۡلَ اَخِيۡهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصۡبَحَ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ ۞ فَبَـعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا يَّبۡحَثُ فِىۡ الۡاَرۡضِ لِيُرِيَهٗ كَيۡفَ يُوَارِىۡ سَوۡءَةَ اَخِيۡهِ‌ؕ قَالَ يَاوَيۡلَتٰٓى اَعَجَزۡتُ اَنۡ اَكُوۡنَ مِثۡلَ هٰذَا الۡغُرَابِ فَاُوَارِىَ سَوۡءَةَ اَخِىۡ‌ۚ فَاَصۡبَحَ مِنَ النّٰدِمِيۡنَ ۞ (سورة المائدة)

 ترجمہ: (اے محمد) انھیں آدم کے دو بیٹوں کا حال واقعی پڑھ کر سنا دیجیے، جب ان دونوں نے نیازیں چڑھائیں تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوئی اور دوسرے کی مقبول نہیں ہوئی، تو (قابیل ہابیل سے کہنے لگا) میں ضرور تمھیں قتل کروں گا، (ہابیل نے کہا) بےشک اللہ پرہیزگاروں کی ہی نیاز کو قبول فرماتا ہے۔ اگر تو مجھ پر قتل کرنے کے لیے ہاتھ چلائے تو میں تجھ کو قتل کرنے کے لیے تجھ پر ہاتھ نہیں چلاؤں گا، میں ڈرتا ہوں اس پروردگار سے جو سارے جہان کا پالنہار ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تو (اس اقدام پر) میرا بھی گناہ حاصل کرلے، اور اپنا گناہ بھی، پھر تو زمرۂ اہل جہنم میں ہو جاؤ اور یہی ظالموں کی سزا ہے۔ مگر اس کے نفس نے اس کو بھائی کے قتل کی ہی ترغیب دی، تو اس نے اسے قتل کر دیا اور خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گیا۔ پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کریدنے لگا؛ تاکہ وہ اسے دکھائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیسے چھپائے، وہ کہنے لگا ہائے افسوس! مجھ سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ میں اس کوّے کے جیسا ہی ہو لیتا تاکہ اپنے بھائی کی لاش کو چھپا لیتا، پھر وہ پشیماں ہوا۔

ہر قتل کا گناہ قابیل کو ہوتا ہے

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا، إلَّا كانَ علَى ابْنِ آدَمَ الأوَّلِ كِفْلٌ مِن دَمِها، لأنَّهُ كانَ أوَّلَ مَن سَنَّ القَتْلَ.(صحیح مسلم)
ترجمہ: دنیا میں جو شخص بھی ظلما قتل کیا جاتا ہے اس کا گناہ حضرت آدم کے پہلے بیٹے (قابیل) کو ضرور ہوتا ہے؛ اس لیے کہ وہ پہلا شخص ہے جس نے ظالمانہ قتل کی بنا ڈالی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی گناہ کی ابتدا کرنے کا وبال کتنا بڑا ہوتا، بدعت بھی اسے زمرے میں آتا ہے۔


ماخود از: قصص القرآن از حفظ الرحمان سیوہاروی رح (الفاظ کی معمولی ترمیم کے ساتھ)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے