Header Ads Widget

بارش کا موسم: قدرت کا انوکھا کرشمہ

 بارش کا موسم: قدرت کا انوکھا کرشمہ


از: عبدالعلیم دیوگھری

بارش کا موسم: قدرت کا انوکھا کرشمہ




بارش کا حسین و دل فریب اور خوش نما موسم دنیا کی ہر مخلوق کے لیے راحت و سکون اور فرحت و سرور کا باعث ہوتا ہے، جب سورج کی گرم گرم شعاؤں سے صحرائیں تپ جاتے ہیں، پہاڑ گرم گرم سانس لینے لگتے ہیں، پتھر دہکتے شعلے بن جاتے ہیں، ذروں سے چنگاریاں بھڑکنے لگتی ہیں، شاہ راہیں آگ اگلنے لگتی ہیں، گرم گرم ہوائیں جسموں کو جھلستی ہیں، انسان آہیں بھر رہا ہوتا ہے، چرند و پرند سسکیاں لے رہے ہوتے ہیں، درخت سوکھنے لگتے ہیں، سبز پتیاں زرد ہونے لگتی ہیں، پھول کمھلانے لگتے ہیں، کلیاں مرجھانے لگتی ہیں اور شبنم روتے ہوئے رخصت ہو جاتی ہے۔ ایسے عالم میں ہر مخلوق آسمان کی سمت نگاہِ امید ٹکائے بارانِ رحمت کے نزول کی دعائیں کر ہی رہی ہوتی ہے کہ ذاتِ رحیم کی رحمتیں ابرِ رحمت بن کر جلوہ گر ہونے لگتی ہیں سحابِ رحمت سیاہ چادریں اوڑھ کر فضا میں تیرنے لگتے ہیں، آفتاب بادلوں کے سیاہ پردوں میں چھپ جاتا ہے، سرد اور فرحت بخش ہوائیں پیغامِ مسرت لاتی ہیں، بجلی کوندتی ہے، بادل گرجتے ہیں اور پھر جیسے ہی بارانِ رحمت کی ٹھنڈی ٹھنڈی بوندیں آسمانی فضا کے سینے کو چیرتی ہوئی زمین کی گرم چھاتی پر ”چھُن“ سے گرتی ہیں تو مٹی کی سوہنی خوشبو سے فضا مشکبار ہو جاتی ہے اور ہر مخلوق کو سکون و قرار نصیب ہو جاتا ہے۔
جھماجھم گرتی بوندوں کی نغمہ سرائی اور ہواؤں کے پرلطف جھونکے قلب و جگر کو مسحور کرتے ہیں اور یہ خیال جگاتے ہیں کہ کچھ لمحے دنیا کی رزم آرائیوں و ہنگامہ خیزیوں سے آزاد اور سبھی غم ہائے روزگار کو فراموش کرکے کھلے آسمان تلے کھڑے ہو جائیں اور بارش کی بوندوں کو اپنے وجود میں جذب کر لیں۔

الغرض اس پرلطف، مسرت انگیز اور خوش کن موسم کی جلوہ آرائی اور خوش منظری سے ہر انسان؛ بلکہ حیوانات و نباتات تک لطف یاب ہوتے ہیں۔ مگر شاید ہی کسی کے آبگینۂ خیال میں یہ بات گزرتی ہے کہ آخر بارش کے اس خوش منظر موسم کی تخلیق کے پسِ پردہ کون سے قوانینِ فطرت کارفرما ہوتے ہیں؟ ہم میں سے بیشتر افراد اس حوالے سے غور و فکر کی زحمت نہیں اٹھاتے ہیں۔ حالاں کہ کائنات کے ان سربستہ رازوں سے آگاہی جہاں فکر و نظر کے نئے نئے زاویوں سے روشناش کراتی اور خیالات کی صیقل گری کا کام کرتی ہے وہیں ایمان و یقین میں پختگی اور استحکام بھی پیدا کرتی ہے اور انسان کائنات کے بدیع و مستحکم اور منظم و مرتب نظام کو دیکھ کر خالقِ کائنات کی بےمثال طاقت و حکمت اور بےنظیر صناعی و کاری گری کے آگے سرِ تعظیم خم کر دیتا ہے۔

خدا کی کرشمہ سازی دیکھیے کہ بادل بننے کا عمل کس طرح انجام پذیر ہوتا ہے، جب سورج کی شدید تمازت سمندر کی سطح کو گرم کرتی ہے تو اوپری سطح پر موجود پانی بخارات میں تحلیل ہوکر گرم ہواؤں میں جذب ہو جاتا ہے، پھر وہ بخارات ہواؤں کے دوش پر سوار آسمان کی بلندیوں کی طرف بڑھنے لگتے ہیں، اور ہر 1000 فیٹ کی بلندی پر درجہ حرارت 5 ڈگری تک کم ہونے لگتا ہے جس کے سبب ہوائیں ٹھنڈ ہونے لگتی ہیں اور پانی کے بخارات چھوٹی چھوٹی بوندوں میں تبدیل ہوکر جمنے لگتے ہیں، پھر جب بوندوں کی تعداد بہت زیادہ ہو جاتی ہے تو وہ باہم مل کر بادلوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
پانی کے یہی ذرات جب آپس میں ٹکراتے ہیں تو ٹوٹ کر گرنے لگتے ہیں، شروع میں تو بوندوں کی جسامت کافی بڑی ہوتی ہے؛ لیکن زمین تک پہنچتے پہنچتے یہ بہت چھوٹی ہو جاتی ہیں، اسی عمل کو ہم بارش سے موسوم کرتے ہیں۔

پھر بارش کی یہی بوندیں بنجر زمین کو مختلف الالوان پھولوں اور نوع بہ نوع خودرو پودوں سے سر سبز و شاداب کر دیتی ہیں، فصلیں اور کھیتیاں لہلہا اٹھتی ہیں اور کاشت کار مسرت و سرمستی میں جھوم جھوم جاتے ہیں، یہی بوندیں جب جنگلوں میں گرتی ہیں تو چرند و پرند رقص و سرود کے عالم میں خوشیوں کے ترانے گنگنانے لگتے ہیں، جب صدف کے سینے میں سما جاتی ہیں تو آب دار موتیوں کا روپ دھار لیتی ہیں اور انہی بوندوں کی زیرِ محبت کلیاں اور غنچے پروان چڑھ کر تختۂ گل کی زینت بنتے اور اپنی رعنائی و حسن کے جلوے بکھیرتے ہیں۔
اگر بارش کا یہ انوکھا نظام بند ہو جائے تو زمین پر حیات کا تصور بھی ختم ہو جائے،  قرآن کریم نے ”فأحيا بہ الأرض بعد موتها“ کہہ کر واضح کر دیا کہ یہ بوندیں زندگی کی حیثیت رکھتی ہیں۔
بےشک کائنات کے اس انوکھے اور حیرت انگیز نظام میں سلیم العقلوں کے لیے خدا کے وجود کی واضح دلیل موجود ہے؛  مگر افسوس ان نام نہاد محققین پر جو ہر چیز کو خود کار نظام کا حصہ اور قوانینِ فطرت کے تابع بناکر خالق کے تصور سے آنکھیں موند لیتے ہیں، ان کی عقلی افلاس اور فکری دریوزہ گری پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس قدر صاف، روشن تر اور بدیہی حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے کہ فطرت کے ان قوانین کا کوئی وضع کرنے والا اور ہر شیئ کو ان کا پابند بنانے والا بھی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے