Header Ads Widget

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے! | وحدتِ امت کی ضرورت و اہمیت

 ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے!


از قلم: ظفر لکھیم پوری
   دارالعلوم دیوبند

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے!


اسلام اور مسلمانوں کا، کسی ملک و سرزمین، علاقے و خطے، اور قوم و برادری پر انحصار نہ کرنا، انہیں دیگر تمام اقوام و ملل سے ممتاز کرتا ہے،
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ وہ مشتِ خاک جسے لوگ وطن کہتے ہیں،
اور ایران وعراق،فلسطین و شام،پاکستان و افغانستان کا نام دیتے ہیں، 
وہ محض عارضی اور تعارفی ہے۔
مسلمانوں کی واحد مملکت، مملکت ِ اسلامیہ ہے جس کے وجود کا تصور،
۵۵ آزاد اور خود مختار مسلم ریاستوں کے بشمول، کرۂ ارضی کے طول وعرض پر پھیلے ہوئے،ڈیڑھ ارب سے زائد  نفوس 
(نسلی،قومی،ملی،ملکی زبانی اور علاقائی فرق وامتیاز ختم کئے بغیر) نہیں ہوتا ہے، اس وسیع تر دائرے کی وجہ سے ایک کلمہ گو مومن، اس جہانِ سنگ و خشت سے بلند ہوکر سوچتا ہے، اس کا جسم تو خاکی ہوتا ہے؛ لیکن روح میں افلاکی عنصر ضرور شامل ہوتا ہے، اسی لئے جب اسے وطنی، قومی اور علاقائی مٹھی میں بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا دم گھنٹے لگتا ہے۔
مملکت اسلامیہ، اپنے ایمان وعقیدے، اخوت و مساوات اور نظام حیات کی وجہ سے، زمان ومکان کی حدود، زبان وبیان کی قید، علاقائی پیمانوں اور نسلی میزانوں سے بلند تر ہے، اس کی اساس، ایمان و عقیدہ کی ابدیت اور رسالت محمدی کی آفاقیت پر ہے، اور اس کی قوت کا سرچشمہ مذہب سے فریفتگی ، اسلامی اصول و قوانین سے وابستگی، اور ملی مفاد پر وارفتگی ہے
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ”المسلم اخو المسلم“ اور ان جیسی دوسری مضبوط رسیوں سے امت مسلمہ کو ایسا مربوط کردیا کہ 
جس طرح مملکت اسلامیہ کے کسی حصے کو ملنے والی فتح کا نقارہ، ڈیڑھ ارب نفوس کے دلوں میں بجتا ہے، اسی طرح مملکت اسلامی کے کسی بھی خطے میں ہونے والے مظالم  کا درد بھی ملت کا انگ انگ محسوس کرتا ہے۔

مقام صد افسوس! 

لیکن مقام ِ صد افسوس یہ ہےکہ آج ملت اسلامیہ 
(کہ جس کی اساس ہی وحدت ہے)
وہ فکر ونظر کے انتشار کا شکار ہے، مرکزیت کی شدید کمی ہے، باہمی ہم آہنگی اور یک جہتی نہ ہونے کے برابر ہے، ظاہری افلاسی اور پسماندگی کے ساتھ  ساتھ عقل و شعور بھی جمود وتعطل کا شکار ہے، پیش بندی، اور منصوبہ بندی نایاب ہے، مملکت اسلامیہ ، ایمان وعقیدے کی پختگی کھوچکی ہے، ہر ملک ذاتی و علاقائی مفاد کا اسیر ہے،
 رنگ ونسل کے اصنام پھر زندہ ہوچکے ہیں، قوم و برادری کے لات وہبل کی پھر سے درآمد ہونے لگی ہے، عرب وعجم کی لکیریں بھی کھینچ چکی ہیں، بتوں کے پجاری قہقہے لگا رہے ہیں کہ جو امت کل تک تسخیر کائنات اور تعمیر نفس وآفاق کا دعویٰ کر رہی تھی، آج وہ مذہب ومسلک، قوم وملت، اور علاقائی کشمکش میں الجھی ہوئی ہے۔

ملت اسلامیہ، بستر مرگ پر کراہ رہی ہے، عرب کسی مردِ انقلاب کے منتظر ہیں، عجم گہوارۂ اسلام کی طرف دیدہ و دل لگائے کسی نجات دہندہ کی تلاش میں ہیں؛ لیکن ان کی دستگیری کیلئے کوئی تیار نہیں ہے۔

روح مسلم سے خطاب!

اے ناموس ازل کے پاسباں!
اے خدائے لم یزل کے رازداں!
اے بقاء عالم امکاں!
اے محافظ حرم!
اے معمار کعبہ!
اے صاحبِ کن فیکون کے نام لیوا!
اے مالکِ لوح وقلم کے فدائی!
اور اے پرستارِ خدائے ہست ونیست!
تیری فطرت سیمابی اور طبیعت سراپا بے تابی ہے، تو وہ طائر بلند وبام ہے، جہاں دوسروں کی رسائی ممکن ہی نہیں، تو وہ شرارہ ہے جو اکیلا ہی باطل کو خاکستر کرنے کیلئے کافی ہے، تیرا وجود، جہاں بانی و جہاں رانی کیلئے ہوا ہے، 
تو مٹنے کیلئے نہیں بلکہ بلندیوں کو پست اور پستیوں کو بلند کرنے کے لئے آیا ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تو اس زمین پر خدا کا آخری پیغام ہے، تو دست قدرت اور زبان قدرت ہے، آ ایک بار تعمیر نفس وآفاق کیلئے کمر کس لے!
آج ہر بلندی اور پستی، ہر سمت و جہت اور ہر طرف سے تجھے پکارا جارہا ہے، ہر آنکھ تجھے دیکھنے کو بیتاب ہے، ہر کان تجھے سننے کی آس میں ہے، عرب کے ریگستان تیری آمد چاہتے ہیں، عجم کے کوہسار تیرے گھوڑوں کےاستقبال میں بیٹھے ہیں، اندلس تیری تلاش میں ہے،
فلسطینی بیت المقدس کا بوجھ اٹھائے اٹھائے تھک چکے ہیں، برمی مظلوم مایوس ہونے کو ہیں، شامی اب مزید عذاب دربدری کی تاب نہیں لا سکتے اور ایغور مسلمانوں کی آہیں کسی معجزے کے انتظار میں ہیں۔
اے حق کی للکار!
اٹھ!
اور نیرنگئ عالم کی تصویر بدل، فرعونوں کا غرور توڑ، مغربی شیشہ گروں کو دبوچ، زمان ومکان سے بغاوت کر کے، سیادت وقیادت کا علم اٹھا اور آندھی طوفان بن کے آفاق کے ہر طرف چھاجا، کائنات کو اپنے مقام سے آگاہ کر کہ ہم وہ مردِآہن ہیں جو غرناطہ بھی چھیننا جانتے ہیں اور القدس بھی، جو بابری پر بھی جھپٹنا جانتے ہیں اور آیا صوفیا پر بھی۔
مسلمانوں! 
آج ملکی، قومی اور مسلکی آویزش کا وقت نہیں؛ بلکہ وقت ہے کہ سب مل کر یاجوج و ماجوج کے اس بے گنتی اور بے تعداد لشکر کا مقابلہ کریں!
جو بے شمار ناموں اور نشانوں، بے حساب لباسوں اور نقابوں کے ساتھ ہر جہت، ہر پہلو اور ہر گوشے سے ”من کل حدب ینسلون“ آفاقی دین پر حملہ آور ہے۔
وقت ہے ”کأنھم بنیان مرصوص“ ہوکر ہاری ہوئی جنگ جیتنے کیلئے اپنی جانوں اور سروں کا نذرانہ پیش کرنے کا۔
سنو! 
جو قوم مرکزیت سے محروم ہوتی ہے اس کی تمام تر قوتیں ضائع اور تمام جدوجہد بیکار ہوجاتی ہیں، 
یاد رہے اگر تم لذت سے ناآشنا رہے،
اگر تم توحید کی طاقت سے بے خبر رہے،
فرنگی تہذیب کے لات و منات کی درآمد کرنے سے باز نہ آئے، 
فرزند حرم ہوکے بھی، دیر و کلیسا کی تعمیر کرتے رہے،
پرستارِ توحید ہوکے بھی، سجدہ ہائے صنم پر راضی رہے،
تو بے نام و نشاں کردئے جاؤ گے،
پسماندگی، درماندگی اور لاچارگی کی چوکھٹ پر پڑے رہو گے، 
تمھارے رسول ﷺ پر تو مکہ کی زمین تنگ کی گئی تھی، 
مگر تم پر عرصۂ عالم تنگ کردیا جائے گا، 
تمھارے رسول ﷺ کے اصحاب کو تو اعلائے حق کیلئے ایک ٹھکانہ مل گیا تھا، 
مگر تم  یوں ہی عذاب دربدری میں گرفتار رہو گے،

اے مرد مومن! 
یورپ کے لاؤ لشکر سے مرعوب نہ ہو، وہ پانی کا بلبلا ہیں، 
ان کے ٹیکنالوجی کے جال سے ہیبت نہ کھا، وہ فقط تارِ عنکبوت ہے، ان کے جنگی طیاروں، بحری بیڑوں کی بلندیاں نہ ناپ، ان کی حیثیت خس و خاشاک کے ڈھیر سے زیادہ نہیں، ان کی صفوں کے اتحاد سے خوفزدہ نہ ہو، وہ بظاہر ایک ہیں ،لیکن ان کی یونین، ملکی،قومی،علاقائی اور ذاتی مفادات پر مبنی ہے، ان کے پاس متحد ہونے کیلئے کوئی بھی مضبوط پلیٹ فارم نہیں ہے۔
وقت ہے اب کہ،جمہوریت کے جھیلوں سے نکلو، علاقائی، سرحدی اورمسلکی جھگڑوں سے توبہ کرو، سیاسی تماشوں سے جان چھڑاؤ، اور حصار دین میں داخل ہو جاؤ، اور بتادو کہ ملک و دولت فقط  حفاظت دین کا ثمر ہے، زندگی کا  اصلی مقصد صرف اور صرف حرم کی پاسبانی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے