Header Ads Widget

حسن اخلاق کی اہمیت و فضیلت احادیث کی روشنی میں

 حسن اخلاق کی اہمیت احادیث کی روشنی میں


حسنِ اخلاق کی اہمیت احادیث کی روشنی میں

از: عبدالعلیم دیوگھری

کہتے ہیں کہ حسنِ اخلاق انسان کا زیور ہے؛ دنیا کی کوئی تہذیب اور کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جس کے پیروکار اخلاقی خوبیوں کی اہمیت کو تسلیم نہ کرتے ہوں؛ بلکہ کرہِ ارض پر بسنے والے تمام انسان مذہب و مشرب اور رنگ و نسل میں تنوع و اختلاف کے باوجود حسنِ اخلاق کے حوالے سے یکساں نظریہ رکھتے ہیں، ہر کوئی اسے بہ نظرِ استحسان دیکھتا اور اس کی خوبیوں کا اعتراف کرتا ہے، اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ یہی وہ امتیازی صفت اور علامتی اختصاص ہے جو انسانوں اور درندوں کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے، اگر انسان میں خوش اخلاقی اور حسنِ کردار کا عنصر مفقود ہو تو اس کی حیثیت ایک انسان نما حیوان سے زیادہ نہیں رہ جائےگی۔
حسنِ اخلاق ایک ایسا قیمتی جوہر ہے جو انسان کی شخصیت کو سنوارنے، نکھارنے اور اس میں چار چاند لگانے کا کام کرتا ہے، اس کی سحرکاری اس قدر حیرت انگیز ہے کہ اس کے ذریعے بڑے بڑے دشمنوں پر نہ صرف فتح یاب ہوا جا سکتا ہے؛ بلکہ انھیں اپنا گرویدہ اور معتقد بنایا جا سکتا ہے۔
جس معاشرے کی تشکیل حسنِ اخلاق کی بنیادوں پر ہوئی ہو اور جس کے افراد اعلی کردار و اوصاف کے مالک ہوں، اس میں کبھی فساد و بگاڑ نہیں آ سکتا اور لوگوں کے عمدہ اخلاق کے اثر سے کوئی سماجی برائی نہیں پنپ سکتی؛ بلکہ ہر طرف الفت و محبت اور امن و شانتی کی فضا قائم رہتی ہے۔


آج ہمارے معاشرے میں جو اختلاف و تشتت، انتشار و افتراق، رنجش و چپقلش، نفرت و عداوت، فساد و بگاڑ، حسد و بغض اور دیگر انگنت برائیوں کے برگ و بار پھل پھول رہے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے حسنِ اخلاق کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور ایک ایسے پیغام کو ٹھکرایا ہے جو باہمی الفت و محبت، توافق و ہم آہنگی، اتحاد و اشتراک، ادب و شائستگی، عدل و انصاف اور امانت و دیانت جیسے اعلی انسانی اوصاف پر مشتمل ہے۔
یوں تو دنیا کی اکثریت ہی اخلاقی سطح پر سقوط و زوال کی شکار ہے اور ہر سمت اخلاقی برائیوں کا ہمہ گیر طوفان بپا ہے، جو یقینا افسوس ناک المیہ ہے؛ لیکن افسوس کی انتہا تب ہوتی ہے جب ہم مسلمانوں کی زندگیوں کا جائزہ لیتے ہیں اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ غیروں سے بھی زیادہ اخلاقی انحطاط و افلاس کی زد میں ہیں، یقینا ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ یہ بداخلاقی و بدکرداری اس قوم اور امت میں در آئی ہے جس کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حسنِ اخلاق کو اپنے تبلیغی مشن کا خاص حصہ قرار دیا ہے اور ”بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكارِمَ الأَخْلاقِ“ (میں اخلاقی قدروں کی تکمیل کے واسطے مبعوث ہوا ہوں) کے ارشادِ عالی سے حسنِ اخلاق کی اہمیت و وقعت کو دنیا والوں کے سامنے واضح کر دیا ہے، اور فقط حسنِ اخلاق کی تبلیغ اور اس کی تعلیم و تربیت پر اکتفا نہیں کیا؛ بلکہ خود اخلاق کے بلند ترین مدارج پر فائز ہوکر رہے اور دنیا والوں کے لیے بےنظیر نمونہ چھوڑ گئے۔


آج دراصل زرپرستی، ہوس رانی، فانی دنیا کی محبت اور آرام و راحت کے وسائل و اسباب کی تلاش و جستجو اور اس میں ایک دوسرے سے مسابقت کی ریس میں ہماری ساری توجہات اس طرح مرکوز ہوکر رہ گئی ہیں کہ ہمیں اپنی شخصیت کی تعمیر و ترقی اور باطن کے اصلاح و تزکیہ کے لیے کوئی پرسکون لمحہ نصیب نہیں ہو رہا، یا ہم شخصیت کی تعمیر کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے ہیں، نیز مغرب کی اخلاق سوز تہذیب کے ہمہ گیر یلغار نے ہمارے معاشرے سے اسلامی تعلیمات کے اثرات و نقوش کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیا ہے؛ چناں چہ ہم نے تمام امور میں مغرب کی تقلید کو ہی کامیابی کا زینہ اور سرخروئی کا باعث باور کر لیا ہے۔
لہذا آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں اسلامی روح بیدار ہو اور خوش اخلاقی کی فضا عام ہو تو ہمیں اسلامی تعلیمات کی روشنی کی طرف لوٹ آنا ہوگا، نیز ہر شخص کے لیے انفرادی طور پر اخلاقی خوبیوں سے متصف ہونا ناگزیر ہوگا کہ فرد سے ہی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور فرد کی اصلاح سے ہی معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے، اگر ہم ذاتی طور پر بااخلاق ہو جائیں تو لوگ از خود ہم سے متأثر ہوں گے اور ان کے اندر بھی اخلاقی خوبیوں کے اپنانے کا داعیہ پیدا ہوگا، اس طرح یہ پیغام آسانی کے ساتھ عام ہوتا چلا جائےگا۔


حسنِ اخلاق پر احادیث

لیکن سب سے ضروری امر یہاں یہ ہے کہ اولا ہم حسنِ اخلاق کی قدر و منزلت کو پہچانیں، جس کے لیے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اخلاقی پہلو اور اس حوالے سے آپ کی تعلیمات کا مطالعہ کرنا ہوگا؛ کیوں کہ دنیا میں آپ سے بڑھ کر کوئی بااخلاق ہستی نہ گزری ہے اور نہ ہی کسی نے آپ سے بڑھ کر حسنِ اخلاق کی تعلیم دی ہے، چناں چہ آپ کی اخلاقی تعلیمات پر مشتمل چند احادیث ذیل میں ذکر کر دیے جاتے ہیں؛ تاکہ ہمیں حسنِ اخلاق کی اہمیت کا اندازہ ہو۔


حسنِ اخلاق سب سے بہتر انسان بناتا ہے

  حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: 
 لمْ يَكُنْ رسولُ الله صلى الله عليه وسلم فاحِشاً ولا مُتَفَِّحشاً، وكان يقولُ: إنَّ مِنْ خِيارِكُمْ أَحْسَنَكُمْ أخلاقًا. (متفق علیہ)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو فحش گو تھے اور نہ بتکلف بدزبانی کرتے تھے، اور آپ فرماتے تھے کہ: تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔ 
حدیث پاک سے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اخلاقی خوبی نمایاں ہوتی ہے کہ آپ نہ فحش گو تھے اور نہ جان بوجھ بتکلف ایسا کرتے تھے؛ بلکہ آپ اعلی اخلاق و کردار مالک تھے، وہیں حسن اخلاق کے تعلق سے آپ کی تعلیم بھی سمجھ میں آتی ہے، کہ آپ نے بااخلاق شخص کو تمام انسانوں میں سب سے بہتر قرار دیا ہے۔

خوش اخلاق شخص کو روزِ قیامت حضور کی قربت کا حصول

حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں: 
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ مِنْ أَحَبِّکُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبِکُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَاسِنَکُمْ أَخْلَاقًا وَإِنَّ أَبْغَضَکُمْ إِلَيَّ وَأَبْعَدَکُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الثَّرْثَارُونَ وَالْمُتَشَدِّقُونَ وَالْمُتَفَيْهِقُونَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ عَلِمْنَا الثَّرْثَارُونَ وَالْمُتَشَدِّقُونَ فَمَا الْمُتَفَيْهِقُونَ قَالَ الْمُتَکَبِّرُونَ. (رواہ الترمذی)
ترجمہ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ (دنیا میں) اور قیامت میں مجھ سے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے لوگ وہ ہوں گے جن کے اخلاق اچھے ہوں، اور تم میں سے سب سے زیادہ مبغوض (دنیا میں) اور مجھ سے سب سے زیادہ دور بیٹھنے والے وہ لوگ ہوں گے جو باتونی (بلااحتیاط بولنے والے) اور زبان دراز ہوں، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم نے ثرثارون (باتونی) اور متشدقون (زبان دراز) کے معنی جان لیے ہیں، یہ متفیہقون کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تکبر کرنے والے لوگ۔
حدیث پاک کا مفہوم صاف اور واضح ہے کہ باخلاق لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ہیں اور قیامت کے دن وہ آپ کے سب سے زیادہ قریب ہوں گے، اور باتونی، زبان دراز اور متکبر قسم کے افراد آپ کو سخت مبغوض ہیں اور قیامت کے دن یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت دور ہوں گے؛ کیوں کہ یہ صفات بداخلاقی کی صفات ہیں۔

حسنِ اخلاق جنت میں لے جانے والا عمل

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں کہا:
سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْثَرِ مَا يُدْخِلُ النَّاسَ الْجَنَّةَ فَقَالَ تَقْوَى اللَّهِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ. (رواہ الترمذی)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس چیز کے متعلق دریافت کیا گیا جو بکثرت لوگوں کو جنت میں داخل کرنے والی ہے، تو آپ نے فرمایا: تقوی (اللہ کا خوف) اور اچھے اخلاق۔
یعنی تقوی اور حسن اخلاق ہی وہ معیار ہیں جس پر کھرا اترنے والا جنت کا مستحق قرار پاتا ہے۔

حسنِ اخلاق میزانِ عمل میں سب سے بھاری عمل

حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ روایت نقل کرتے ہیں: 
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا شَيْئٌ أَثْقَلُ فِي مِيزَانِ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ وَإِنَّ اللَّهَ لَيُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِيئَ. (رواہ الترمذی)
ترجمہ: بےشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن مومن کے میزان میں اچھے اخلاق سے بڑھ کوئی چیز نہ ہوگی اور بےشک اللہ تعالی بےحیائی اور بدزبانی کرنے والے سے نفرت کرتا ہے۔
یعنی قیامت کے دن جب اعمال تولے جائیں گے تو اس وقت ثواب کے اعتبار سے حسنِ اخلاق سے بڑھ کر کوئی اور عمل نہیں ہوگا؛ کیوں کہ حسنِ اخلاق بہت سے اعمال کا مجموعہ ہوا کرتا ہے اس کے اندر، صبر و شکر، رحم و کرم، جود و سخا، امانت و دیانت، صلہ رحمی وغیرہ جیسے اعمال شامل ہیں؛ لہذا اس کا ثواب بھی سب سے زیادہ ہوگا۔

خوش اخلاق کے لیے روزے دار اور رات کو قیام کرنے والے کا درجہ

حدیث شریف میں ہے:
عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ‏‏‏‏ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيُدْرِكُ بِحُسْنِ خُلُقِهِ دَرَجَةَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ. (رواہ ابوداؤد)
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: کہ مومن اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے روزےداروں اور رات میں قیام کرنے والوں کا درجہ پا لیتا ہے۔
ظاہر ہے کہ روزہ رکھنا اور رات میں قیام کرنا (نماز پڑھنا) اللہ تعالی کو بےحد پسند ہے، اور یہ دونوں پر از مشقت کام ہیں، جب کہ حسنِ اخلاق ان کی بہ نسبت سہل ہے، اس کے باوجود اللہ تعالی باخلاق شخص کو روزے دار اور قیام کرنے والے کا درجہ عطا فرماتے ہیں، بےشک حسنِ اخلاق انسان کو بلند مرتبے پر فائز کر دیتا ہے۔
واضح رہے کہ حدیث پاک میں روزے سے مراد نفل روزے ہیں اور قیام اللیل سے مراد رات کی نفل نمازیں ہیں؛ ورنہ فرائض کا تو اپنا مقام ہے۔

حسن اخلاق کامل ایمان کی نشانی

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی حدیث نقل کرتے ہیں:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَخِيَارُکُمْ خِيَارُکُمْ لِنِسَائِهِمْ خُلُقًا. (رواہ الترمذی)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں، اور تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے عورتوں کے حق میں اخلاقی اعتبار سے بہتر ہو۔
ایمانِ کامل کا مطلب یہ ہے وہ سب سے زیادہ ایمان کے مقتضیات پر عمل پیرا ہوتا ہے؛ کیوں کہ اخلاق میں تمام ایمانی اوصاف داخل ہو جاتے ہیں؛ لہذا جو بااخلاق ہوگا گویا وہ سب سے کامل ایمان والا ہے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے