Header Ads Widget

علمِ حدیث کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور غرض و غایت

 علمِ حدیث کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور غرض و غایت

علم حدیث کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور غرض و غایت




علمِ حدیث نہایت متبرک علم ہے، اس کے ساتھ اشتغال رکھنے والوں کی بہت سی فضیلتیں احادیث پاک میں وارد ہوئی ہیں، یہی وجہ ہے کہ دورِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے لیکر تاہنوز علماءِ کرام اس مبارک علم سے وابستہ ہیں اور اس وابستگی کو وہ اپنے حق میں فیروزہ بختی اور سعادت مندی تصور کرتے ہیں۔
علمِ حدیث ایک ایسے بحرِ بےکراں کی مانند ہے جہاں نایاب قسم کے قیمتی جواہرات موجود ہیں، اہلِ علم اس میں غوطہ زن ہوتے ہیں اور بیش قیمت موتیاں نکال لاتے ہیں۔
یوں تو عام مسلمان حدیث کا اس قدر مطلب تو سمجھتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات پر مشتمل ہوتے ہیں؛ لیکن وہ اس کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور اس کی غرض و غایت سے ناآشنا ہوتے ہیں؛ چناں چہ ایسے احباب کی آگاہی کے پیشِ نظر ہم ذیل میں علمِ حدیث کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور اس کی غرض و غایت کو قدرے تفصیل سے بیان کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔


حدیث کی لغوی تعریف

حدیث کا لغوی معنی ”کلام اور بات کرنے“ کے آتے ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ”فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِّثْلِهِ إِن كَانُوا صَادِقِينَ“. (پس وہ اس جیسی ہی بات بناکر لے آئیں اگر وہ سچے ہیں)
حدیث کو حدیث اس مناسبت سے کہا جاتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام و ارشادات پر مشتمل ہوتے ہیں، یہاں یہ مغالطہ نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و ارشادات ہی فقط حدیث ہیں؛ بلکہ آپ کے افعال و تقریرات پر بھی حدیث کا اطلاق ہوتا ہے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات اور خصائل و شمائل مثلا آپ کا رنگ و حلیہ، قد و قامت، چلنے، پھرنے اور اٹھنے بیٹھے کے طور طریقے بھی حدیث کی تعریف میں شامل ہیں۔

حدیث کا دوسرا لغوی معنی ”جدید“ کے آتے ہیں، چناں چہ اس معنی کو اختیار کرنے والے علما مناسبت اس طرح بیان کرتے ہیں کہ حدیث کے معانی من جانب اللہ اور الفاظ من جانب الرسول ہوتے ہیں، اور قرآن کے الفاظ و معانی دونوں اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں، چناں چہ قرآن کی نسبت اللہ کی طرف ہوئی اور وہ اللہ کی صفت ہونے کی بنا پر قدیم ہے۔
اور حدیث کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوئی اور آپ علیہ السلام حادث ہیں؛ لہذا آپ سے منسوب اقوال بھی حدیث بمعنی حادث ہوں گے۔

البتہ علماء کرام نے پہلے معنی کو راجح قرار دیا ہے۔ (ماخوذ از کتاب: ”حدیث اور فہمِ حدیث“ الفاظ سے تغیر کے ساتھ)

حدیث کی اصطلاحی تعریف

 ماَ أُضِيْفَ إِلى النبيِ صلى الله عليه وسلم مِنْ قَوْلٍ أَوْ فِعْلٍ أَوْ تَقْرِيْرٍ أَوْ صِفَةٍ خُلْقِيَّةٍ أَوْ خِلْقِيَّةٍ سَواَءٌ ماَ كاَنَ قَبْلَ الْبِعْثَةِ أَوْ بَعْدَهَا. (حدیث اور فہمِ حدیث)
یعنی ہر وہ چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو؛ خواہ وہ قول ہو، فعل ہو، تقریر ہو یا آپ کی اخلاقی یا جبلی صفات ہوں اور خواہ آپ کی بعثت سے قبل کی ہوں یا بعد کی۔
تقریر کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صحابہ نے کوئی عمل کیا اور آپ کو اس کی اطلاع ہوئی اور آپ نے اس عمل کی تائید کی یا اس پر سکوت فرمایا۔

مذکورہ بالا تعریف محدثین کے نزدیک ہے، فقہاءِ کرام چند امور کا استثنا کرکے اس کی تعریف کرتے ہیں؛ کیوں کہ ان کے پیشِ نظر مسائل شرعیہ کا استنباط ہے؛ چناں چہ وہ اس طرح تعریف فرماتے ہیں:
أقوالُ النبيِ صلى الله عليه وسلم وأفعالُه وتقريراتُه بعدَ النبوةِ“.
  یعنی حدیث سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اقوال و افعال اور تقریرات مراد ہیں جو آپ کو نبوت ملنے کے بعد آپ سے صادر ہوئے ہیں؛ کیوں قبل از بعثت صادر شدہ اقوال و افعال سے شرعی احکام متعلق نہیں ہوتے ہیں۔ (”حدیث اور فہمِ حدیث“ الفاظ کے تغیر کے ساتھ)


علمِ حدیث کی غرض و غایت

معرفة الحديث المقبول فيُعمل به، والمردود، فيُطَّرح، ولا يُعمل به.
علمِ حدیث کے ذریعہ ثابت شدہ اور غیر ثابت شدہ احادیث کا امتیاز معلوم ہوتا ہے؛ تاکہ ثابت حدیثوں پر عمل کیا جائے اور غیر ثابت پر عمل نہ کیا جائے۔
علم حدیث کا سیکھنا فرضِ کفایہ ہے یعنی ہر دور میں امت کے اندر ایسے افراد ہونے چاہیے جو اس فن میں اشتغال اور مہارت رکھے۔
علمِ حدیث کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ احادیث کو کذب و وضع کی آلائش کی آمیزش سے محفوظ رکھا جائے، تاکہ اس کے ذریعے بدعات و خرافات اور دینی امور میں تحریف و تبدیل نہ پیدا ہو۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے