Header Ads Widget

اسلام میں زکوۃ کی اہمیت و تاکید

اسلام میں زکوۃ کی اہمیت و تاکید


اسلام میں زکوۃ کی اہمیت و فرضیت

زکوۃ اسلام کا رکن اور مادی احتیاجات کی تکمیل کا ذریعہ

ارکانِ اسلام میں ایک بنیادی اور اہم رکن زکوۃ ہے، زکوۃ کی فرضیت نماز، روزہ اور حج کے مثل دلائلِ قطعیہ شرعیہ اور امت کے غیر منقطع تعامل سے ثابت شدہ ہے، اسلام میں فریضۂِ زکوۃ کو خاص اہمیت و مقام حاصل ہے، زکوۃ ایک عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی اقتصادی احتیاجات کی تکمیل کا ذریعہ ہے، یہ اسلام کی جامعیت و ہمہ گیری اور اس کے فطری دین ہونے کی صریح دلیل ہے کہ اس کے احکامات و تعلیمات کا انحصار فقط انسانوں کی روحانی احتیاجات کی تکمیل پر نہیں ہے؛ بلکہ اسلام نے جس طرح نماز روزہ اور دیگر عبادتوں کے ذریعے انسانوں کی روحانی تقاضوں کو پورا کرکے ان کی تربیت و اصلاح اور تزکیہ کا سامان کیا اسی طرح ان کی مادی اور اقتصادی ضروریات کو بھی پیشِ نظر رکھا اور ان کو پورا کرنے کے لیے زکوۃ و صدقات کا جامع اور محکم نظامِ عمل پیش کیا جو بےشمار دنیوی و اخروی منافع کی ضامن ہے، آج جس طرح مسلمان نماز، روزہ اور دیگر عبادتوں سے غفلت و بےاعتنائی برتنے کی بنا پر گوناگوں روحانی امراض کا شکار ہے اسی طرح فریضۂ زکوۃ کے تئیں تغافل و لاپروائی برتنے کے نیتجے میں معاشی بحران کی چپیٹ میں بھی ہے، آج ہم اپنے معاشرے میں ایک طائرانہ نظر ڈال کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ سارا معاشرہ حرام خوری، سود و رشوت اور ہزارہا قسم کی برائیوں میں مبتلا ہے، اس کا سبب بجر اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ ہم نے زکوۃ جیسے اہم فریضہ سے اپنی آنکھیں موند لی ہیں اور اس کے فضائل و برکات اور اثرات و ثمرات کو یکسر فراموش کر دیا ہے، غرض معاشرتی فساد و بگاڑ اور معاشی و تجارتی امور میں پھیلی ساری وبائیں فریضۂ زکوۃ سے صرفِ نظر کا نتیجہ ہیں، اگر ہم اسلام کے عطا کردہ اس محکم اور جامع اقتصادی نظام اور طرزِ زندگی کو اپنا لیتے تو معاشرے میں نہ حرام خوری کی وبائیں پنپتیں اور نہ ہی سود ر رشوت جیسے ناجائز امور فروغ پاتے جو عموما غریبوں کی معاشی زندگی کے لیے زہرِ ہلاہل ہیں اور جس کے سہارے ظالم امرا اور اہلِ ثروت غریبوں پر اپنا جابرانہ و ظالمانہ تسلط قائم کرکے ان کا استحصال کرتے ہیں۔

ذرا غور کریں کہ یہ قتل و غارت گری، لوٹ گھسوٹ، چوری،  ڈاکہ،  فتنہ و فساد، قطع رحمی،باہمی منافرت بھائیوں میں عداوت، تفاخر و تکبر، بخل و حرص اور اس قسم کے ہزارہا سماجی اور معاشرتی برائیوں کے جراثیم پنپنے کے پسِ پردہ کون سے عوامل کار فرما ہیں؟
 کوئی شک نہیں کہ ان برائیوں کے مختلف محرکات و اسباب ہیں؛ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مال و دولت کی حرص و ہوس اور دنیا کی محبت بھی ان کا ایک بڑا سبب ہے، المیہ یہ ہے کہ دورِ حاضر میں مدح و تعریف اور تفوق و برتری کا معیار دولت و ثروت کو ٹھہرا دیا گیا ہے؛ چناں چہ یہاں وہی قابلِ عزت و احترام گردانا جاتا ہے جس کے پاس مال و دولت کی بہتات، راحت و آرام کے اسباب کی فراوانی اور شاہانہ تزک و احتشام کے وسائل وافر مقدار میں موجود ہوں؛ چناں چہ انسان ان چیزوں کے حصول کے لیے حرام و حلال کی تمیز بھول کر روپیے پیسے کی ذخیرہ اندوزی میں لگ جاتا ہے اور اس کے لیے وہ برائیوں کی سرحدوں کو پار کر جاتا ہے۔
  زکوۃ کے جملہ منافع و مصالح میں سے ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں کا تزکیہ اور تطہیر ہوتی ہے، مال کی حرص و لالچ ختم ہوتی ہے، حرام خوری کی صفت ختم ہوتی ہے ل، مخلوقِ خدا کے تئیں دل میں نرمی اور محبت پیدا ہوتی ہے اور استغنا کی دولت حاصل ہوتی ہے اگر لوگ پابندی سے زکوۃ ادا کرنا شروع کردیں تو دیگر مادی منافع سے ساتھ ساتھ یہ منفعت بھی ظاہر ہوگی جس سے معاشرے سے مذکورہ برائیوں کا تناسب کم ہو جائےگا، اب جب زکوۃ ادا کرنے کی عادت عام ہو جائےگی تو کسبِ حلال کو بھی فروغ حاصل ہوگا؛ کیوں کہ حرام مال سے زکوۃ نکالنا درست نہیں ہے، اور جب کسبِ حرام سے لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا ہو جائےگی تو اس کے تمام ذرائع مثلا سود و رشوت، جوا، خیانت، چوری اور ڈکیتی کی راہیں بھی مسدود ہو جائیں گی۔

زکوۃ کی اہمیت و تاکید

اسلام میں زکوۃ کی شرعی حیثیت کے حوالے سے پہلے کہا جا چکا ہے کہ وہ اسلام کا اہم ترین رکن ہے اور جملہ مالی عبادتوں میں اسے اساس و بنیاد کی حیثیت حاصل ہے، قرآن حکیم میں کم و بیش بتیس مقامات پر صراحتا نماز کے ساتھ زکوۃ کا حکم وارد ہے، اس سے جہاں اس کی فرضیت و وجوب کا ثبوت ہوتا ہے وہیں یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ جو مرکزیت نماز کو بدنی عبادتوں میں حاصل ہے وہی مرکزیت زکوۃ کو بھی مالی عبادتوں میں حاصل ہے، زکوۃ کی اہمیت بتلانے کے لیے اتنی سی بات کافی تھی؛ لیکن چوں کہ انسان فطری طور پر مال و زر کا حریص واقع ہوا ہے اور فریضۂ زکوۃ سے ان کے حرص و طمع پر زد پڑتی ہے، جس کے سبب اندیشہ تھا کہ لوگ اس فریضے کے تئیں غفلت کا مظاہرہ کریں گے؛ چناں چہ فریضۂ زکوۃ کے تاکیدی حکم کو لوگوں کے اذہان و قلوب میں راسخ کرنے  اور اس کی طرف ان کی ترغیب و تحریض اور عدم تعمیل کی صورت میں ترہیب و تنذیر کے لیے متعدد قرآنی آیات اور احادیثِ شریفہ وارد ہوئی ہیں، جن میں سے ایک مشہور آیتِ کریمہ یہ ہے: 

وَالَّذِيۡنَ يَكۡنِزُوۡنَ الذَّهَبَ وَالۡفِضَّةَ وَلَا يُنۡفِقُوۡنَهَا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِۙ فَبَشِّرۡهُمۡ بِعَذَابٍ اَلِيۡمٍۙ
يَّومَ يُحۡمٰى عَلَيۡهَا فِىۡ نَارِ جَهَـنَّمَ فَتُكۡوٰى بِهَا جِبَاهُهُمۡ وَجُنُوۡبُهُمۡ وَظُهُوۡرُهُمۡ‌ؕ هٰذَا مَا كَنَزۡتُمۡ لِاَنۡفُسِكُمۡ فَذُوۡقُوۡا مَا كُنۡتُمۡ تَكۡنِزُوۡنَ . (سورة التوبة)
ترجمہ: اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہیں، آپ انھیں ایک دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے، جس دن کہ (سونے چاندی) کو جہنم کی آگ میں تپایا جائےگا پھر ان سے ان کی پیشانیوں کو اور پہلوؤں کو اور پشتوں کو داغا جائےگا، (اور کہا جائےگا) یہی ہے وہ جسے تم جمع کرتے رہتے تھے؛ سو اب مزہ چکھو اپنے جمع کرنے کا۔
اتنی صریح، شدید اور مؤکد عذاب کی وعید سے اس فریضے کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، بھلا اس کے بعد کسی کوٹھی بنگلہ اور سرمایہ دار کے لیے سونے اور چاندی کے ڈھیر کے ڈھیر جمع کرنے کی اسلام میں کہاں سے گنجائش ہو سکتی ہے۔
کنز لغوی اعتبار سے اس مال کو کہا جاتا ہے جو کسی ظرف میں محفوظ رکھا گیا ہو یا زیرِ زمین دفن کرکے رکھا گیا ہو، لیکن اصطلاح شرع اور احادیث مبارکہ میں کنز سے مراد وہ مال ہے جس کی زکوۃ ادا نہ کی گئی ہو، امام بیہقی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جس مال کی زکوۃ ادا کر دی جائے وہ کنز نہیں ہے خواہ وہ زمین کے سات پردوں کی تہہ میں گڑا ہوا کیوں نہ ہو اور جس مال کی زکوۃ ادا نہ کی گئی ہو وہ کنز ہے خواہ وہ زمین کی سطح پر کیوں نہ ہو، نیز بخاری شریف میں موجود ہے: ما أدي زكاته فليس بكنز. یعنی جس مال کی زکوۃ ادا کر دی جائے وہ کنز میں شامل نہیں ہوگا اور آیت مبارکہ کی وعیدِ شدید کی زد میں نہیں آئےگا۔ (بحوالہ تفسیرِ ماجدی)

زکوۃ کی اہمیت کا اندازہ اس واقعے سے بھی لگائیے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالمِ فانی سے کوچ کر گئے اور آپ کی عدمِ موجودگی کا فائدہ اٹھاکر مختلف فتنے اپنے بلوں سے سر نکاکر سرزمینِ عرب پر حاوی ہونے لگے اور ریاستِ اسلامیہ نازک صورتِ حال اور انتشار و بدامنی کی شکار ہونے لگی تو اس وقت جو فتنہ اپنے مفاسد اور نتائج کے اعتبار سے سب سے خطرناک اور سنگین تھا وہ منکرینِ زکوۃ کی طرف سے برپا کردہ فتنہ تھا؛ چناں چہ اس فتنے کے تعاقب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جس ایمانی غیرت و حمیت اور بہادری کا مظاہرہ کیا وہ آپ ہی کی شان تھی، آپ رضی اللہ عنہ نے نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام کے مشورے کے باوجود ببانگِ دہل اعلان کر دیا کہ جو شخص بھی نماز اور زکوۃ کے درمیان کسی فرق اور امتیاز کا روا سمجھےگا میں اس کے خلاف جہاد کروں گا، چناں چہ آپ نے ایسا ہی کیا اور جب تک اس فتنے کو تہہِ تیغ نہ کر دیا  تب تک آپ نے سکون کی سانس نہیں لی۔

زکوۃ کی فرضیت کس قدر مؤکد ہے اس کا اندازہ ذیل کی آیتِ مبارکہ سے لگائیے: 
وَلَا يَحۡسَبَنَّ الَّذِيۡنَ يَبۡخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰٮهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ هُوَ خَيۡـرًا لَّهُمۡ‌ؕ بَلۡ هُوَ شَرٌّ لَّهُمۡ‌ؕ سَيُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِهٖ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ ‌ؕ وَ لِلّٰهِ مِيۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ.
ترجمہ: اور ہرگز خیال نہ کریں وہ لوگ جو اس مال میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انھیں اپنے فضل سے دے رکھا ہے کہ یہ بخل کرنا ان کے حق میں اچھا ہوگا؛ بلکہ یہ ان کے لیے بہت ہی برا ہے قیامت کے دن طوق بناکر وہ مال ان کے گلے میں ڈالا جائےگا جس میں وہ بخل کرتے تھے۔

علامہ قرطبی رحمہ اللہ بخل کی لغوی تعریف اس طرح کرتے ہیں: البخل في اللغة أن يمنع الإنسان الحق الواجب عليه.
 یعنی بخل کا لغوی معنی یہ ہے کہ انسان اپنے اوپر واجب شدہ حق کی ادائیگی نہ کرے۔
اور زکوۃ چوں کہ بندوں پر واجب ہے؛ لہذا اس کی ادائیگی میں کوتاہی برتنا بھی بخل ہوگا اور ایسے لوگ آیتِ کریمہ کی وعید شدید کے مستحق قرار پائیں گے، اس آیت کریمہ کی تفسیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالی نے مال سے نوازا اور اس نے اس کی زکوۃ ادا نہ کی تو بروزِ قیامت اس کا مال اس کے سامنے زہریلے ناگ کی شکل میں ظاہر ہوگا اور زہر کی شدت کی بنا پر اس کے سر کے بال جھڑ گئے ہوں گے، پھر وہ اس کی دونوں بانچھیں پکڑےگا (اور کاٹےگا) اور کہےگا میں تیرا مال ہوں اور میں تیرا خزانہ ہوں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا آیت تلاوت فرمائی۔ (مفہوم حدیث، صحیح بخاری)
زکوۃ نہ ادا کرنے والے کو اس قسم کا عذاب دینا در حقیقت اس مناسبت کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ صاحبِ مال دنیا میں اپنے مال سے حرص و طمع کی بنیاد ہے ہمہ وقت چمٹا رہتا ہے گویا وہ اپنے مال پر سانپ بنا بیٹھا رہتا ہے؛ چناں چہ بروز قیامت جب مجردات و معانی اجسام میں متشکل ہو جائیں گے اس وقت اس کا مال انتہائی زہریلا سانپ بن پر اس کے گلے سے چمٹا رہےگا اور ڈستا رہےگا۔

زکوۃ ایک سماجی و اخلاقی فریضہ

ان کے علاوہ متعدد قرآنی آیات و احادیث زکوۃ کی اہمیت و تاکید بتلانے کے لیے وارد ہوئی ہیں، جن تمام کو ایک مختصر سی تحریر میں ذکر کرنا مشکل ہے؛ لہذا ہمیں ان ہی آیتوں سے سبق لینا چاہیے اور اس فریضے کی جانب اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے، زکوۃ اسلام کا ایک اہم فریضہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انسانی اور اخلاقی فریضہ بھی ہے؛ کیوں کہ انسانیت اس بات کی متقاضی ہے کہ صرف اپنی آسائشوں کی فکر نہ کی جائے؛ بلکہ سماج کے پسماندہ اور غریب افراد کے گھروں میں بھی خوش حالی کی قندیلیں فروزاں کی جائیں اور انھیں تنگ دستی اور مفلوک الحالی کی پرخار وادیوں سے نکال کر آسودہ حالی اور فارغ البالی کے میدان میں لایا جائے، یہ سماج کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے اس کے بغیر سماج اور سوسائٹی کو ترقی کی شاہ راہ پر گامزن نہیں کیا جا سکتا، مگر اس انسانی ذمہ داری کو حق تعالی نے شرعی ذمہ داری بھی قرار دی اس کے باوجود اس قدر غفلت شعاری اور حکم عدولی باعث تشویش اور صد افسوس ہے۔

دورِ حاضر میں زکوۃ کی اہمیت

آج کے دور میں زکوۃ کے اہمیت و ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے وجہ یہ ہے کہ دنیا کے بیشر مسلم ممالک مفلوک الحالی اور معاشی پسماندگی سے زارونزار ہیں، وہاں کے رہائشی مسلمان فقر و فاقہ کی زد میں ہے، ایسے میں ان کی غربت و افلاس کا فائدہ اٹھاکر عیسانی مشنریاں انھی مالی امداد پہنچانے کے نام پر ان سے ان کے ایمان کا سودا کر کے اسلام سے برگشتہ کر رہی ہیں، بنگلہ دیش، افغانستان اور انڈوشیا جیسے ممالک میں ایسے واقعات بہ کثرت ظہور پذیر ہو چکے ہیں جہاں اقتصادی معاونت کے پسِ پردہ کمزور اور ناخواندہ مسلمانوں کے اذہان میں اپنے باطل عقائد و نظریات راسخ کر رہے ہیں اور بھولے بھالے اور معاشی تنگی سے پریشان مسلمان مجبورا مرتد ہو رہے ہیں، خود ہمارے ملک ہندوستان میں ایسے واقعات کی کمی نہیں ہے، آئے دن ہماری سماعتوں سے ارتداد کی روح فرسا خبریں ٹکراتی رہتی ہیں۔ لہذا اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ خوش حال مسلمان زکوۃ و صدقات اور دیگر مدات کے ذریعے اپنے مسلمان بھائیوں کی بھرپور امداد کرکے ان کو ارتداد کے غار میں گرنے سے بچائیں۔
اللہ تعالی ہمیں اس فریضے کی ادائیگی کی بھرپور توفیق عطا فرمائے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے