Header Ads Widget

امتحانی پرچہ حل کرنے کا طریقہ

 امتحانی پرچہ حل کرنے کا طریقہ


امتحانی پرچہ حل کرنے کا طریقہ


امتحان ایک ایسا پیمانہ ہے جس سے طالبِ علم کی صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جاتا ہے، اس کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ درسی کتابوں کے حل اور یاد کرنے میں طالبِ علم نے کس قدر محنت و جانفشانی کا مظاہرہ کیا ہے۔
امتحان کے بہتر نتائج جہاں طالبِ علم کو ہمت و حوصلہ اور خود اعتمادی کی دولت سے بہرہ یاب کرتے ہیں وہیں خراب اور غیر معیاری نتائج حوصلہ شکنی اور احساسِ کمتری جیسی ذہنی بیماریوں کے باعث بنتے ہیں، یہی نہیں؛ بلکہ تعلیم کے آئندہ مراحل مثلا تکمیلات و تخصصات میں داخلے کا امکان و عدم امکان بھی امتحانی نتائج پر موقوف ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر طالبِ علم کی یہ خواہش؛ بلکہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ امتحانات میں اعلی نمبرات سے کامیاب ہو، جس کے لیے کتابوں کے یاد کرنے میں کافی محنت و مجاہدہ بھی کرتے ہیں اور کتابیں یاد کر لیتے ہیں جو یقینا کرنا بھی چاہیے۔
مگر اس کے باوجود طلبہ کی ایک کثیر تعداد اپنی محنت اور کتابی یادداشت کے معیار کے مطابق نمبرات حاصل کرنے سے قاصر رہ جاتی ہے، یہ درحقیقت امتحانی پرچہ کے حل کرنے کے آداب و اصول سے عدمِ واقفیت کا نتیجہ ہوتا ہے، یعنی وہ کتابیں تو بفضل اللہ اچھی طرح یاد کر لیتے ہیں؛ لیکن امتحانی پرچہ خوش اسلوبی اور ممتحن کی منشا کے مطابق نہ حل کر پانے کی بنا پر ممتحن حضرات سے زیادہ نمبر حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔ لہذا ایسے طلبہ کی رہنمائی کی خاطر ذیل میں امتحانی پرچہ حل کرنے کے آداب و اصول کے حوالے سے چند تجاویز اور ہدایات سپردِ قرطاس کی جا رہی ہیں۔


امتحانی پرچہ حل کرنے کا طریقہ

(۱) طالبِ علم کو چاہیے کہ اولا وہ سوالات کا پرچہ از اول تا آخر بالاستیعاب بغور پڑھے اور سوال کے ہر ہر جز سے پوری طور پر واقف ہو جائے اورممتحن کا منشا اس کے سامنے صاف ظاہر ہو جائے۔

(۲) طالب علم کو چاہیے کہ اولا اس سوال کو حل کرے جو اسے سب سے اچھی طرح یاد ہے اور جس کی بابت وہ خود کو پر اعتماد محسوس کر رہا ہے؛ کیوں کہ ممتحن جب پہلے ہی جواب سے متاثر ہو جائےگا تو دیگر جوابات میں اگر کوئی خامی ہو تو اسے بھی درگزر کر دےگا۔

(۳) جواب عمدہ تحریر، خوشخط، نہایت صفائی ستھرائی اور رموز اوقاف وغیرہ کی مکمل رعایت کرکے لکھے؛ کیوں کہ یہ چیزیں اضافی نمبرات کا باعث بنتی ہیں۔

(۴) جوابات خواہ عربی میں لکھا جائے یا اردو میں، املا کی درستی ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے، بہت سے طلبہ کو کتابیں تو خوب یاد رہتی ہیں؛ تاہم املا وغیرہ سے عدم واقفیت کی بنا پر نمبرات کے سلسلے میں وہ مار کھا جاتے ہیں؛ لہذا اس جانب خصوصی توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے، فقط درسیات میں محدود نہ رہے؛ بلکہ خارجی کتب بھی بہ غرض اصلاحِ زبان و ادب مطالعہ میں شامل رکھنی چاہیے۔

(۵) سوال کے ہر ہر جز کا جواب لکھ دینا چاہیے، کوئی جز تشنہ نہ باقی رہے اگر کسی جز کا جواب نہ آتا ہو تو بھی خالی چھوڑنے سے بہتر ہے کچھ نہ کچھ لکھ دیا جائے؛ کیوں کہ الإملاء خير من الإخلاء.

(۶) پرچہ خواہ آسان ہو یا مشکل مقررہ وقت سے پہلے امتحان گاہ سے نہ اٹھنا چاہیے؛ بلکہ مابقی اوقات جوابات کی کاپی میں تنقیدی اور اصلاحی نظر ڈالنی چاہیے؛ تاکہ کوئی جز رہ گیا تو حاشیہ میں لکھ لیا جائے۔

(۷) اساتذہ کی تقاریر شروحات کی عبارتیں مستحضر ہوں تو انھیں بھی سپردِ قرطاس کرنا چاہیے۔

(۸) سوال کی عبارت بغور پڑھنے کے بعد دیکھا جائے کہ اس کا تعلق ماقبل کی عبارت سے ہے یا نہیں، اگر ہے تو ماقبل کے مضمون کو علی الاختصار تحریر کرنے کے بعد اصل جواب کو تحریر کیا جائے۔ اور اگر ماقبل سے کوئی تعلق نہ ہو تو ماقبل کے مضمون سے کوئی تعرض نہ کیا جائے۔

(۹) اگر سوال عبارت پر اعراب لگانے سے متعلق ہو تو عبارت کو بڑے بڑے صاف حروف میں لکھا جائے، بہتر ہے سطر چھوڑ کر لکھا جائے اور اعراب آخری حرف پر لگایا جائے تنوین و تشدید کا خاص لحاظ رکھا جائے۔

(۱۰) بسااوقات عبارت سوال مقدر کا جواب ہوتی ہے ایسی صورت میں سوال مقدر کا ذکر کیا جائے پھر جواب لکھا جائے؛ ورنہ عبارت کے ما لہ و ما علیہ پر روشنی ڈالی جائے۔

(۱۱) بعض دفعہ ممتحن تشریح کے علاوہ جزئیات پر الگ سے سوال قائم کرتا ہے ایسی صورت میں اگر اس جز کا جواب تشریح کے ضمن میں نہ گزرا ہو تو اس کا جواب لکھا جائے، اور اگر گزر گیا ہے تو جلی قلم سے تشریح کے اس جز پر نشان لگا دی جائے اور اس کی طرف اشارہ کر دینے پر اکتفا کیا جائے۔

(۱۲) اگر سوال قرآنِ کریم کے ترجمہ سے متعلق ہو تو اولا آیت کا سلیس اور معنی خیز ترجمہ کیجیے، اگر شان نزول کی بابت سوال کیا گیا ہے تو اختصار کے ساتھ جامع انداز میں شانِ نزول تحریر کیجیے، پھر اگر خط کشیدہ الفاظ کی لغوی صرفی تحقیق بھی سوال کا حصہ ہو تو اولا خط کشیدہ لفظ پر اس طرح اعراب لگائیے کہ اس کا درست تلفظ ہو سکے پھر اگر وہ واحد ہے تو اس کی جمع، اور اگر جمع ہے تو اس کا واحد لکھیے، اور اگر فعل ہے تو اولا فعل کی تعیین پھر اس کا صیغہ اور پھر اس کا باب و مصدر اور معنی لکھیے۔

(۱۳) اگر سوال کتبِ حدیث کا ہو تو اولا حدیث کا معنی خیز اور سلیس ترجمہ لکھیے پھر اس کی ایسی جامع تشریح کیجیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا صاف ظاہر ہو جائے، پھر دیکھا جائے کہ حدیث عقائد سے متعلق ہے یا فقہ سے، اگر عقائد سے متعلق ہے تو حدیث سے ثابت شدہ عقیدہ تحریر کیجیے، اور اگر کوئی فقہی مسئلہ مستنبط ہو تو مسئلہ تحریر کیجیے اور ائمہ کے مذاہب مع دلائل بیان کیجیے۔

(۱۴) اگر سوال کتبِ فقہ سے متعلق ہو تو اولا صورتِ مسئلہ تحریر کریں، پھر اگر اس میں ائمہ کا اختلاف ہو تو اسے بھی مع دلیل ذکر کریں اور وجہِ ترجیح بھی لکھیں۔

(۱۵) سوال اگر کتبِ ادب سے متعلق ہو تو اولا عبارت کا سلیس اور شستہ ترجمہ کریں، پھر لغوی صرفی تحقیق ہدایت نمبر ۱۲ میں ذکر کردہ طریقے کے مطابق تحریر کریں۔

(۱۶) پرچہ اگر اصولِ فقہ سے متعلق ہو تو اولا قاعدہ کی مکمل اور تشفی بخش وضاحت کریں، پھر مثال تحریر کریں اور اس پر قاعدے کو منطبق کریں۔

(۱۷) پرچہ حل کرتے وقت ایسے الفاظ و تعبیرات کا استعمال کیجیے جو مانوس الاستعمال اور عام فہم ہو جس سے جواب کی مکمل ترجمانی ہو سکے، حشو و زوائد سے پرچہ بالکل صاف رکھیے اور تذکیر و تانیث اور املا کا خصوصی لحاظ کیجیے۔

(۱۸) پرچہ میں ایسے الفاظ کا قطعا استعمال نہ کریں جن کے معانی آپ کو یقینی طور پر معلوم نہ ہوں۔

(۱۹) امتحان کے لیے مقرر کردہ وقت کی پابندی کیجیے، وقت پر پہنچیے اور مکمل وقت امتحان گاہ میں رہیے اور جواب پر نظر ثانی کرتے رہیے۔


یہ ہدایات مفتی محمد سجاد قاسمی مدظلہ استاذ دارالعلوم وقف کی تحریر اور دیگر تحریرات سے الفاظ و تعبیرات کی معمولی ترمیم کے ساتھ ماخوذ ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے