Header Ads Widget

نماز معراج میں کیوں فرض ہوئی؟

 نماز معراج میں کیوں فرض ہوئی؟


نماز معراج میں کیوں فرض ہوئی؟




اسلام میں تمام عبادات پر نماز کو فوقیت و برتری حاصل ہے، نماز کو دین کا ستون قرار دیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص قصرِ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو سب سے پہلا مطالبہ اس سے نماز کا ہوتا ہے، نماز میں بندۂ مومن اپنے خالق سے سرگوشیاں کرتا ہے اپنی عاجزی و انکساری کا اظہار کرتا ہے، اسی بنا پر اسے مومنین کے حق میں معراج قرار دیا گیا ہے، خیر نماز کی فضیلت و اہمیت محتاجِ بیان نہیں ہے اور یہ موضوع کوئی نیا بھی ہے۔

مسلمان اس بات سے بخوبی ہیں کہ نماز کی فرضیت شبِ معراج میں ہوئی تھی، اس کے برخلاف دیگر ارکان و عبادات کی فرضیت روئے زمین پر وحی کے ذریعہ ہوئی، یہ امتیازی و انفرادی شان اور خصوصیت صرف نماز کو حاصل ہوئی؛ لیکن اس حیرت انگیز طرز پر فرضیتِ صلوۃ کے پسِ پردہ رب کی کیسی حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ تھیں؟ 
زیر نظر تحریر انھیں حکمتوں اور مصلحتوں کو واشگاف کرتی ہے جنھیں مصلحت شناس علما نے بیان فرمایا ہے۔


نماز معراج میں کیوں فرض ہوئی؟


1.معراج پر نماز کی فرضیت کی ایک واضح اور بین وجہ تو یہ ہے ایسا کرنا نماز کی فوقیت و برتری اور عظمت و شوکت کے اظہار کے موجب تھا؛ کیوں کہ عبادات میں افضل ترین عبادت نماز ہے؛ لہذا اس کی عظمتِ شان اس امر کی متقاضی تھی کہ اس کی فرضیت کا عمل بھی کسی مہتم بالشان، عظیم اور پر شکوہ مقام پر ہو؛ چناں چہ حق تعالی نے اپنے محبوب پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلی و ارفع مقام پر مدعو فرمایا اور بطورِ تحفہ پنج وقتہ نماز عطا فرماکر آپ کی امت کو نہال کر دیا۔

2. یہ بات تو معلوم ہے کہ دیگر عبادات کے برعکس فرضیت صلوۃ کے عمل میں فرشتوں کا کوئی واسطہ نہ تھا؛ بلکہ بالمشافہہ اور روبرو ہوکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رب سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا اور نماز فرض ہوئی، جو اس بات کی طرف مشیر ہے کہ جو کوئی رب کی ہمکلامی سے شرف یاب ہونا چاہتا ہے وہ نماز کو لازم پکڑے؛ چناں چہ دنیا میں بندۂ مومن نماز کے ذریعے رب سے مناجات و سرگوشی کرتا ہے، اور ان شاءاللہ آخرت میں نمازیوں کو حق تعالی سے بالمشافہہ اور بلاواسطہ گفتگو کرنے کا شرف حاصل ہوگا۔

3. جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو عظیم سہارے آپ کی پہلی شریکِ حیات خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہ اور آپ کے چچا ابوطالب دنیا سے کوچ کر گئے اور آپ اہل مکہ کی ریشہ دوانیوں اور ایذا رسانیوں سے سے تنگ آکر جانبِ طائف پیغام توحید کو عام کرنے کی غرض سے تشریف لے گئے اور اہل طائف نے خلاف توقع نہ صرف آپ کی تکذیب کی؛ بلکہ تمسخر اور مذاق اڑایا اور طرح طرح کی تکلیفیں دیں اور آپ نہایت مغموم اور رنجیدہ خاطر ہوکر وہاں سے لوٹے تو آپ پر غم و اندوہ کا کوہِ گراں ٹوٹ پڑا اور آپ ذہنی کلفت و اضطراب اور بےچینی میں مبتلا ہو گئے، ایسے غم کے عالم میں حق تعالی نے آپ کی تشفی اور تسلی کے واسطے یہ سامان کیا کہ آپ کو معراج پر بلایا اور نماز کا تحفہ عطا فرمایا، اس میں اس جانب صاف اشارہ موجود ہے کہ جب زندگی کے سفر میں مصائب و آلام کی دشوار کن گھاٹیاں سے گزرنا پڑے تو نماز کے ذریعہ اپنے مصائب و آلام اور غموں کو دور کیا جائے کہ نماز غموں کا مداوا اور راحت و تسکین کا باعث ہے۔

4. نماز کی فرضیت ایک بلند و بالا، مقدس اور پاک جگہ پر ہوئی جو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ نماز کا اہتمام کرنے والا اللہ کے یہاں بلند مقام پاتا ہے، اور اس کے دل اندر تقوی، طہارت اور پاکیزگی پیدا ہو جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ نماز کے لیے وضو اور طہارت کو شرط قرار دیا گیا؛ تاکہ اولا ظاہری طہارت کا حصول ہو اور پھر نماز کے ذریعہ باطنی خباثت دور ہو اور انسان تقوی و طہارت کے پیکر میں ڈھل جائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے